فطری ماحول کا خاتمہ آلودگی کاباعث

ہفتہ 28 دسمبر 2019

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

پنجاب کی معروف شکار گاہیں جو کہ ساندل بار کی پہچان اور شکاریوں کیلئے آبی جانوروں کا شکار کرنے اور سیر وتفریح کے موقع فراہم کرتیں آ رہی تھیں پانی کی کمی اور عدم تحفظ کا شکار ہو گیئں جبکہ برفانی علاقوں سائبیرہ روس چین سے لاکھوں آبی اور خشکی کے پرندے صدیوں سے پاکستان بھارت کیلئے ہجرت کر کے ان ممالک کے گرم علاقوں قیام کرتے آ رہے تھے ساندل بار کی ان شکار گاہوں نں،ٹھٹھہ رائیکا ، شاہ بہلول ،نابوراڑہ ، قلعہ مراد بخش ،گھبریکا کی چھبوں پر مہمان پرندوں مرغابیاں ِ،مگھ ، نیل سر ، ریڈ ہینڈ ، بگلے ، چہاہے ، تلیر ، گونجاں ِ، نری، روسی کبوتر ، فاختہ ، ٹوبہ ، مرغابی کی مختلف اقسام ، بٹیرے ، تیتر ،سمیت دیگر پرندے شامل ہیں ان قیام گاہوں پر قیام کرتے اور چھ سات ماہ بعد یہاں قیام و طعام کا سلسلہ جاری رہتا اور ساندل بار کی جنگلی حیات رنگا رنگ پرندوں سے سج جاتی اور اس کے ساتھ شکایوں کو بھی شکار کرنے کا شوق بھی پورا ہوتا کیونکہ ان شکار گاہوں میں پانی وافر مقدار میں تھا اور پرندوں کو خوراک اور پانی بھی میسر تھا اور لوگوں کو ایسے پرندے بھی دکھنے کا موقع ملتا جن کا تعلق ان علاقوں سے علاقوں سے نہ تھا ان معروف شکار گاہوں پر راجے مہارجے ھکمران بیورو کریٹ فلمسازوں ادا کاروں جنرلوں سمیت شکار سے شائقین افراد کا آنا جانا رہتا شکاریوں کو ان شکار گاہوں میں مچھلی کا شکار بھی مل جاتا اور سور کے شائقین شکاری بھی سور کا شکار کرنے میں اپنا زور دکھاتے جبکہ یہ شکار بڑی قوت اور بھاگ دوڑ اور اس جنگلی طاقتور جانور سے کافی مڈ ھ بھیڑ سے ہوتا تھا لیکن چند سالوں کی خشک سالی نے ان شکار گاہوں کو خشک کر کے رکھ دیا جس ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے یہاں قیام کے بجائے نہروں دریاوٴں ڈیمز کا پانی کے ذرخیر کا رک کر لیاساندل بار کے حسن کو گہن لگ کیا حالانکہ اگر منصوعی طریقہ سے ان آبی شکار گاہوں پانی کی فراہمی کردی جاتی تو ان قیام گاہوں سے مہمان پرندے روٹھ کر نہ جاتے کیونکہ صدیوں سے ان پرندوں کی نسلیں ان قیام گاہوں پر آنے کا سلسلہ جاری رکھاتھا عدم توجہ نے ایسی صورت پیدا کر دی ذرا لاہور کاوزٹ کریں تو وہاں پرندوں کے تحفظ کیلئے محفو ظ گھر معروف راستوں پر بنائے گئے ہیں جبکہ شہر بھر میں جنگلی کبوتر اور دیگر پرندوں کو مارنے شکار کرنے اور پکڑنے کی شہری ہر گز اجازت نہیں دیتے اور ان کا تحفظ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اگر لاہوریوں ہی نکالی کرلیں تو ان پرندوں کو تحفظ مل سکتا ہے یہ بھی ہماری زندگی کا حصہ ہیں اب بھی اس جانب توجہ کرلی جائے تو ان شکار گاہوں کو منصوعی طریقہ سے آباد کیا جا سکتا ہے مغرب کے ممالک پرندوں جانوروں جنگلات کا تحفظ کرتے ہیں اس کے برعکس یہاں عدم تحفظ کا ماحول برقرار ہے اور کسی کو ٹس سے مس تک نہ ہے مغرب میں کوئی پرندہ یا جانور ہجرت کر کے آتا ہے تو وہاں اس کے قیام کا تحفظ قدرتی ماحول کے مطابق کر کے اس کی حرکات کی فلم بنانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ اس کی دوسری نسل تک جاری رہا ہے اور اس کی فلم بنا کر اس سے رقم کمائی جاتی ہے جوکہ بھاری معاوضہ کے ساتھ فرخت ہو جاتی ہے مگر ہم ان کا شکار اور ہلاک کر کے فخر کرتے آ رہے ہیں جس سے ہمارا فظری ماحول ختم ہوتا جا رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہیں جس سے ہم دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے فظری حسن کو بحال کر سکیں اور صدیوں سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو قیام طعام گاہیں واپس لوٹا سکیں تاکہ ہماری نسلیں بھی ان پرندوں اور فطرٰ نظاروں کو بھی دیکھ سکیں اور یہ تفریح اور سیاحت کے فروغ کا بھی باعث بن سکیں متعلقہ اداروں کا بھی فرض ہے اس پر کام کریں اور اپنا فرض ادا کریں ان سے بھی کائنات سجی ہوئی ہے اور قدرت کا انسانوں کیلئے بہت بڑ ا انعام ہے جس کو ختم نہیں ہونا چاہیے حکومت اور عوام کے باہمی تعاون سے ہی جنگلی حیات کی بحالی کیلئے جدو جہد جاری رکھنے سے ہی فطری حسن کی بحالی ممکن ہے متعلقہ محکموں کو بھی اعدوشمار کی کاروائیاں سے کار کردگی بنانے کے بجائے حقیقی معنوں میں قومی فرض سمجھ کر ہر کام کو انجام دینے کا عہد کر لینا چاہیے اسی صورت میں ہی ہر شعبہ زندگی میں ترقی خو شحالی آ سکتی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :