ہجرتوں کے بعد بھی

بدھ 10 فروری 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

مچھ میں ہزارہ کمیونٹی کے کئی بے گناہ لوگ قتل ہوئے اور انتہائی بے دردی سے قتل ہوئے ، ان کے ورثاء کئی دن تک لاشیں رکھ کے منفی درجہ حرارت پہ بیٹھے رہے، صرف اس آس میں کہ کوئی آئے اور ان کا درد سنے ۔ اپنوں کو کھونے کے بعد اس سردی میں بیٹھنا بھی کوئی آسان کام نہیں ، انسان یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ مرنے والے کا غم کرے یا اپنی جان کی فکر۔

یہ سب دیکھ کے ہر با ضمیر انسان کو لگا کہ حکومت ، قانون بلکہ پورا معاشرہ ہی ان کا مجرم ہے ۔ لیکن جب ایک غیر ملکی نیوز چینل پہ اس خبر کا آغاز ان الفاظ میں ہوا ” اسلامک سٹیٹ پاکستان“ تو ایسا لگا کہ ہم صرف ان مقتولوں اور ان کے ورثاء کے مجرم نہیں۔ بلکہ ہم ان لاکھوں شہداء کے بھی مجرم ہیں جہنوں نے دین کی راہ میں جان دی ۔

(جاری ہے)

ہم ان شخصیات کے بھی مجرم ہیں جہنوں نے اسلام کے نام پہ اس ملک کے قیام کی کوشش کی ۔


 ہمارے ملک میں آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں اور ہم شاید اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ یہ سب ہمیں ایک خبر سے ذیادہ کچھ نہیں لگتا۔ کبھی لوگ ، لوگوں کو مار دیتے ہیں، اور کبھی قانون خود لوگوں کو مار دیتا ہے ۔ چند دن پہلے کا ہی واقعہ ہے کہ ایک نو جوان کو پولیس گولیاں مار کے ہلاک کر دیتی ہے اور کابینہ کی مٹینگ میں وزیر کے الفاظ ہیں کہ ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں ۔

بات بھی سچ ہے ہمارے ملک میں روز کہیں نہ کہیں کسی کی عزت، کسی کا مال، کسی کی جان چلی جاتی ہے۔ لیکن اتنی سی بات پہ کون اپنا سکون تباہ کرے اس لیے چینل بدل دیتے ہیں۔
 ہم کہتے تو ہیں کہ ہمارا مذہب امن اور محبت کا پیغام ہے لیکن وہ جو اسلام کے پیغام اور مسلمانوں کے کردار کے تضاد کو نہیں جانتے وہ ایسی خبروں کے بعد بے اختیار شکر کرتے ہوں گئے کہ وہ اسلامی ریاست میں نہیں ہیں جہاں لوگ اتنی بے رحمی سے قتل ہوتے ہیں۔

سو چتے تو ہم بھی ہیں کہ یہ وہ ریاست مدینہ تو نہیں ، جس کے خواب دکھائے گئے تھے۔ وہاں تو کتے کی موت کی ذمہ داری بھی حکمران پہ تھی۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم صاحب کے کوئٹہ جانے میں تاخیر کرنے کے پیچھے کچھ مجبوریا ں ہوں لیکن اس مو قعے پہ بلیک میلنگ کا لفظ سمجھ نہیں آیا ۔ عوام کا خیال ہے کہ اس بار انہوں نے اپنا مسیحا چنا ہے ، اس لیے وہ اپنے درد سنا سکتے ہیں۔

اس لیے براہ مہربانی عوام کے مطالبات کو بلیک میلنگ سمجھنے کے بجائے حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے ۔
 پچھلی سات دہائیوں میں اس عوام نے اقتدار مختلف شخصیات کے ہاتھوں میں منتقل ہوتے دیکھا ہے ، جمہوریت ، امریت سب آزمایا ہے ۔ لیکن اپنی حالت بدلتی کبھی نہیں دیکھی۔ اس بار بھی یہی ہو رہا ہے ۔ وہ لوگ جو کبھی انقلاب کی باتیں کیا کر تے ہیں ، کہا کرتے تھے کہ ہم نے سیاست دان ستر سال دیکھے ہیں اب اس ملک کو ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔

اب وہ بھی کچھ حد تک شرمندہ اور کافی حد تک مایوس نظر آنے لگے ہیں ۔ مچھ واقعہ کے بعد اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگ تو روز قتل ہوتے ہیں تو کیا اب سب ہی لاش رکھ کے بیٹھ جائیں کہ وزیر اعظم کے آنے پہ دفنائیں گئے ۔ یعنی اپنی جان کے تحفظ کی امید وہ بھی کھو چکے ہیں۔
سازش تھی رہبروں کی یا قسمت کا کھیل تھا
ہم ہجرتوں کے بعد بھی قاتل کے گھر میں تھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :