قیامت کی نشانی

جمعرات 24 ستمبر 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

طاہرہ جنوبی پنجاب کے بڑے شہر بہاولپور کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے محنت کش کی بیٹی تھی جسے چند روز قبل بااثر افراد کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور جب طاہرہ اور اس کاوالد رپورٹ درج کروانے پولیس چوکی گئے تو پولیس نے روایتی بے حسی اور ڈائیلاگ بازی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ باپ کا سر شرم سے جھک گیا جسے ایک شریف بیٹی برداشت نہ کر سکی اور ایک تحریری پیغام چھوڑ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا کہ ”ابا !آپ کل سر اٹھا کر جیوگے “ ۔

طاہرہ خود تو چلی گئی مگر ریاست مدینہ کے علمبرداروں ، سیاسی وسماجی ٹھیکیداروں اور انصاف کی بلا تفریق فراہمی کے دعوے داروں کا سر ہمیشہ کے لیے جھکا گئی یہ کوئی پہلی چیخ نہیں ہے جونظام عدل کی کمزوری، پولیس کی ناقص کارکردگی اور ریاستی زوال کے نتیجے میں سنی گئی ہے آپ شاید آمنہ کو بھول گئے جس نے ایسے ہی ناروا رویے کیوجہ سے احتجاجاً عین تھانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی ایسی کتنی طاہرہ اور آمنہ ریکارڈ پر موجود ہیں کہ جن کی چیخ فائلوں میں دفن اور پکار فضاؤں میں گونجتی ہے مگر ادارے غریب اور متوسط متاثرین و مظلوموں کیلئے حرکت میں نہیں آتے ۔

(جاری ہے)

ہاں ! مگر vip افراد کی جان کی حفاظت کا یہ عالم ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا قافلہ گزارنے کے لیے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا حتی کہ ایمبولینس کو بھی گزرنے کی اجاز ت نہیں دی گئی اور ایمبولینس میں موجود ایک جوان زندگی کی بازی ہار گیا مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ اس کا تعلق اشرافیہ سے نہیں تھا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ٹھیک کہا تھا کہ : ”حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے “۔


تاہم صرف حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ غفلت ہی نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی رویے ہی سوالیہ نشان ہیں چونکہ ہمارے معاشرے میں انہی مسائل پر آواز بلند کی جاتی ہیں جو اشرافیہ سے متعلقہ ہوں اور دو چار سنگین واقعات تو ہمیں جھنجھوڑتے بھی نہیں بلکہ ہم سانحات و واقعات کی کثیر تعداد دیکھ کر چونکتے ہیں ورنہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں پھر پوچھتے ہیں کہ ملک میں جنسی زیادتی کے تشویشناک حد تک بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ کیا ہے ؟ وہ کونسے عوامل ہیں جنھوں نے مفاد پرستی اور ہوس پرستی کو تحریک دیکر معاشرے کو نڈر اور بے خوف کر دیا ہے ؟ حالانکہ وجوہات اور اسباب ہمارے پیدا کردہ ہیں۔

۔آپ اپنا سارا اردو لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں ،کسی بھی صدی کے شاعر کی شاعری پڑھ لیں آپ کو ہر چیز عورت کے اعضا اور نسوانی حسن کے گرد گھومتی نظر آئے گی یہاں تک کہ بدنام اور ناپسندیدہ ٹھکانوں پر رات گزارنے والے لکھاریوں نے ایسے ہیجان انگیز مضامین قلمبند کئے کہ جن کا ذکر تو کجا ان کتابوں کو کوئی شریف آدمی اپنے گھر لا کر اپنے کسی بچے کو پڑھنے کے لیے بھی نہیں دے سکتا مگر ان کے حامیوں کے پاس ایسی ایسی دلیلیں ہیں کہ وہ ایسے تذکروں کو بھی قلمی جہاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعفن زدہ معاشرے کی گندگی کو بے نقاب کر کے انمٹ سچائیوں کو بیان کیا گیاہے لہذاان کا یہ عمل قابل داد ہے حتی کہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ عورت اور معاشرے کی اصل سچائی کوایسے بیباک لکھاریوں نے ہی پیش کیا ہے درحقیقت آج تک کوئی دنیادار دعوی ہی نہیں کر سکا کہ وہ عورت کے مقام کو سمجھتا ہے اور ایسے لکھاریوں کو تو ایسی عورتوں تک رسائی حاصل تھی جن کے پاس شرفاء رات کے اندھیروں میں جاتے تھے لہذا اہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ایسے حساس موضوعات کو معاشرے میں عام کرنے والوں نے سماج اور ادب کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ طریقے سے ذاتی وارداتوں کو بیان کرتے ہوئے پردے میں رکھنے والی چیز کو بے پردہ کیااور بعض نے جب دیکھا کہ عورت بکتی ہے اور واہ وائی ہوتی ہے تو اس پر نسل در نسل کام شروع کر دیا الغرض رنگ و پھول کی ہوس بیدار کرنے اور کچے ذہنوں کے معصوم اور پا کیزہ شعور کو تحریک دینے میں اس قسم کے لٹریچر کا بنیادی کردار ہے ۔


بہرحال اسی کی دہائی تک ایسا لٹریچر عام نہیں تھا اور معاشرے کی تربیت اسلامی اقدار و روایات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی تھی کیونکہ بڑے علمائے کرام سیاسی وابستگیوں سے دور تھے اور ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا یقینا کہیں نہ کہیں برائی تو موجود تھی مگر سزائیں سخت تھیں اسلیے سنگین واقعات کبھی کبھار ہی سامنے آتے تھے تبھی پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ بچیاں اور بچے اکٹھے کھیلتے اور کسی کو کسی کا خوف نہ تھا بلکہ رات دیر تک دروازے بھی کھلے رہتے تھے نیز ٹی وی موبائیل نہ ہونے کیوجہ سے اہل علاقہ رات دیر تک گھروں سے باہر مل بیٹھتے اور دکھ سکھ بانٹتے تھے بایں وجہ محلے کی بہو اور بیٹیاں سانجھی تھیں اور کوئی کسی کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا پھر ہمیں لبرل مائنڈڈمیڈیائی و سیاسی گمراہ کن عناصر چمٹ گئے جنھوں نے مغربی تہذیب کے ایجنڈے کی وکالت شروع کرتے ہوئے ان کی چکا چوند کو معاشرتی ترقی کے لیے لازم و ملزم قرار دیکر مادر پدر آزادی کو عام کر دیا رفتہ رفتہ سماجی اور شخصی آزادی کے نام پر عریانیت اور بے پردگی کا بازار سجانے والوں نے میڈیا پر ڈیرے جما لئے اور یوں عورت اور اس کی مورت سر عام بکنے لگی ۔

ایسی کونسی چیز ہے جو عورت کی مورت دکھا کر نہیں بیچی جارہی ۔
مجھے کہنے دیجیے کہ آپ نے چینل ریٹنگ چکر میں معصوم بچیوں سے ہو شربا ڈانس کروائے ، وہ ڈرامے جو کبھی ہماری ثقافت اور اقدار کے آئینہ دار ہوا کرتے تھے جنھیں دیکھنے کے لیے پوراخاندان مل بیٹھتا تھا اور اداکار بھی اپنی حدیں پہچانتے تھے جو بھی تھا مگر سر عام کوئی نہ پیتا نہ بہکتا تھا مگر پھر ڈراموں میں شرم و حیا کے پردے سر عام تار تار کئے گئے اور مرد و زن کے اختلاط اور محبت و عاشقی کے قصے یوں عام کئے گئے کہ کچے ذہن بہکتے چلے گئے ،مخلص مذہبی وسماجی حلقے چیختے رہ گئے مگر برائی اس قدر حاوی ہو چکی تھی کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ،سٹیج ڈراموں میں ننگے مجرے ہوتے رہے ،با اثر افراد کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ہر کسی کو تحفظ حاصل رہاکسی نے سوچا ہی نہیں کہ برائی ایسی دلدل ہے جس میں کوئی ایک بار پاؤں رکھ دے تو دھنستاچلا جاتا ہے اور ایسا ہی ہوا کہ عورت ہی نہیں بلکہ بچے بھی غیر محفوظ ہوگئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ جب پارلیمینٹ کے دروازے کو ٹھوکرماری گئی تو مجرمانہ خاموشی نے کھلا پیغام دیا کہ ”گزر گیااب وہ دور ساقی کہ چھپ کہ پیتے تھے پینے والے ، بنے گا سارا جہاں مہ خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا “۔

المختصر آپ نے عورت کو ایک بار پھر جسم بنا دیا ہے اور ہمیں چودہ سو سال سے بھی پیچھے گمراہی کے دور میں پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی مشکل لگتی ہے کیونکہ ہر کسی کے قول و فعل میں تضاد ہے اور یہی سارا فساد ہے اب صرف ایک ہی حل ہے کہ معاشرہ اپنے طور پر اپنی روحانی تربیت اور حفاظت کا انتظام کرے اور اب بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی بھی تربیت کریں کیونکہ ہمارے معاشرے کا عام رواج رہا ہے کہ بچی ابھی چھوٹی ہوتی ہے تو نصیحتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ دھی رانی ! ”سیانی بن توں اگلے گھر جاناں اے “مگر بیٹوں کو کوئی یہ نہیں کہتا کہ : پتر ! ”انسان بن تیرے گھر کسی نے آنا اے اور دوسروں کی ماؤں ۔

بہنوں اور بیٹیوں کو اسی نظر سے دیکھنا جس نظر سے توں چاہتا ہے کہ لوگ تیرے گھر کی عورتوں کو دیکھا کریں ۔“ہمیں مجموعی طور پر اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا اگر ہم مزید نقصان سے بچنا چاہتے ہیں اور سر اٹھا کر چلنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ اگر ہم نے میڈیا پر روحانی اور مقدس کردار دکھانے کی بجائے ، بد کردار ،گمراہ کن ، بے راہ روی کا گستاخانہ اور مادر پدر آزاد ماحول دکھاتے جانا ہے تو پھر یہاں حکومت ،قانون نافذ کرنے والے ادارے ،عدلیہ اور معاشرہ کے پارسا افراد کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے حتی کہ واعظ بھی طاقت ور مفتی ہوتے ہوئے ناچتا نظر آئے گا جو کہ قیامت کی نشانی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :