
میں اللہ سے کہونگی کہ آئندہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے
جمعہ 12 مارچ 2021

رقیہ غزل
(جاری ہے)
بے شک ”انما الاعمال با نیات “ شاید ہماری نیت میں کھوٹ ہے کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جہیز کی رسم برصغیر پاک وہند میں ہندو دھرم کے زیر اثر شروع ہوئی کیونکہ ہندو اپنے قدیم قانون (منو) کیوجہ سے بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے اس کی تلافی کے لیے انھوں نے یہ رواج ڈالا کہ وہ رخصتی کے وقت کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے درحقیقت ہندوؤں نے جہیز کے نام پر سازو سامان دیکر بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کی راہ نکالی تھی مزید ثابت کیا تھا کہ بیٹی واقعی بوجھ ہے کیونکہ اسلام نے بیٹی کو رحمت کہہ کر بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم کا خاتمہ کیا تھا اور وراثت میں حصے دار بنایا تھالیکن چونکہ ہندوانہ معاشرے میں دینی تعلیمات اور عقائد و اعمال کی تبلیغ کافقدان تھا اسی لیے مسلمانوں نے بھی بتدریج اس رسم کو اپنا لیاہندو اثرات کیوجہ سے معاشرے میں داخل ہونے والی یہ رسم اب پاکستان و بھارت میں ایک لعنت کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں اور تقریباًساٹھ فیصد کی زندگیاں شادی کے بعد عذاب ہوجاتی ہیں کیونکہ انھیں مسلسل تشدد، حیوانیت اور طعنہ زنی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے ان کی حسب خواہش نقد روپیہ اور ساز و سامان لیکر آئیں اور جب ہر قسم کے استحصال کے بعد بھی کچھ نہیں ملتا تو بعض جگہوں میں لڑکی کو زندہ جلادیا جاتا ہے اور بسا اوقات لڑکی خود بھی انتہائی قدم اٹھا لیتی ہے حالانکہ یہ رسم بد اسلامی تعلیمات اور شریعت کے مزاج کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ اسلام نے تو اس کے برخلاف مہر،نان نفقہ اور دعوت ولیمہ کی ذمہ داری بھی شوہر پر رکھی اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمہ داری سے دور رکھا تھا بلکہ فقہا کے یہاں تو اس بات کا تصور ہی نہیں تھا کہ مرد بھی عورت سے روپے کا مطالبہ کر سکتا ہے اسلیئے بھی اس مسئلہ پر کتب ہائے فقہ میں تذکرہ نہیں ملتا یعنی اسلام میں جہیز کا کوئی تصو ر ہی نہیں ہے بلکہ اسلام لڑکی کی بہترین ”تعلیم و تربیت “ پر زور دیتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب عزت و شرافت اور تعلیم و تربیت کا معیار دولت سمجھی جاتی ہے اور انسانیت کی کوئی قدر نہیں تبھی میں کہتی ہوں کہ یقینا اسلام کے پابند اور ایماندار لوگ نہیں مل سکتے مگر جب بیٹیوں کی شادی کیا کریں تو انھیں یہ تلقین کر کے رخصت کیا کریں کہ بیٹی ! ہم نے انسان کا بچہ کا دیکھ کر رشتہ طے کیا ہے لیکن اگر جانور نکل آیا تو واپس لوٹ آنا کیونکہ طلاق کوئی گالی نہیں اورنہ ہی اسلام میں ایسی کوئی پابندی ہے کہ خود غرضوں اور جانوروں کے لیے خود کو گنوایا جائے لیکن ایسا بھی کوئی نہیں کرے گا کیونکہ ہمارے ہاں بیٹی کو بوجھ کی طرح ہی اتارا جاتا ہے اور لوٹ آنے پر ایسا بوجھ سمجھا جاتا ہے جسے صرف موت ہی اتار سکتی ہے
بہرحال جہیز کیلئے عورت کا استحصال قابل مذمت ہے جو کہ صدیوں سے ہو رہا ہے اگر حکمران اس سلسلے میں کوئی مئوثر کردار ادا نہیں کر سکتے تو انھیں چاہیے کہ جیسے مغربی و یورپی ممالک نے ضرورت مندوں‘بیماروں اور بوڑھوں کے لیے وظیفے مقرر کر رکھے ہیں اور اس سے قبل مدینے کی اسلامی ریاستوں میں بھی بیواؤں کے معقول وظائف مقرر تھے ایسے ہی جس گھر میں بیٹی پیدا ہو آپ اس بیٹی کا وظیفہ مقرر کر دیا کریں اور شرط عائد کر دیں کہ وہ پیسے صرف لڑکی کے جہیز میں خرچ ہونگے کیونکہ ماں باپ اپنے بچوں کی ضروریات تو خود کو بیچ کر بھی پوری کر دیتے ہیں مگر خود کو بیچ کر بھی بیٹی کا جہیز پورا نہیں کر پاتے ۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.