انصاف کا قتل ہوا ،یا قاتل کا قتل

پیر 9 دسمبر 2019

Saad Iftikhar

سعد افتخار

2012سیالکوٹ کے ایک گاؤں بٹر میں نعمان نامی شخص نے گولیاں مار کر 25سالہ جوان تسلیم کو قتل کر دیا ، مقتول تسلیم کا باپ پہلے ہی وفات پا چکا تھا ،تسلیم یتیم اور اسکی ماں بیوہ بن کر زندگی گزار رہے تھے ،ماں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بیٹے کو جوان کیا ،لیکن شاید تسلیم کی جوانی اسکی ماں کے نصیب میں نہیں تھی ،بیوہ ایک دفعہ پھر سے بے سہارا ہوگئی ،تسلیم کی ماں پروین نے خود سے عہد کیا کہ جب تک اس کے گھر کی خوشیاں اجاڑنے والے کا حشر نہیں ہو گا وہ ساری زندگی ننگے پاؤں گزارے گی،اور عرصہ دراز پروین ننگے پاؤں ہی گلیوں میں گھومتی رہی ،پروین کا ننگے پاؤں چکر لگانا اس کے دکھ کا مداوا نہیں کر رہا تھابلکہ وہ اس ظالم اور مادہ پرست معاشرے کے سامنے ایک احتجاج تھا ۔


سیشن کورٹ نے گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر قاتل کو سزائے موت سنا دی ،مقتول کی ماں کو کچھ حوصلہ ہوا ،لیکن پھر ہوا یوں کہ قاتل نے اپیل ہائیکورٹ میں دائر کی ،ہائیکورٹ نے گواہوں اور ثبوتوں کو ناکافی قرار دیتے ہو ئے قاتل کو بری کر دیا ،جو قیامت تسلیم کے قتل ہونے پر تسلیم کے گھر ٹوٹی تھی شاید آج وہی قیامت ناک منظرپھر لوگوں نے دیکھے۔

(جاری ہے)


قاتل رہا ہونے کے بعد فورا بیرون ملک چلا گیا ،سانحے کو 07برس گزر گے اور اب تو شاید تسلیم کی قبر کا کتبہ بھی دھندلا گیا ہو گا لیکن اس کا قاتل آزاد زندگی گزار رہا ہے ،ماں کی دعائیں اور قاتل کاانجام قاتل کو پھر ایک دفعہ پاکستان لے ہی آیا ،پروین بی بی نے موقع پاتے ہی اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ قاتل کو گھر کے دروازے پر گولیاں مار کر قتل کر دیا ،قتل کے بعد چھوٹے بیٹے کو بھگادیا اور خود جا کر گرفتاری دے دی،قاتل کا انجام دیکھ کرمکافات عمل والی حقیقت پھرسے ایک دفعہ واضح ہوتی نظر آئی۔


پروین بی بی نے قانون ہاتھ میں لے کر اچھا نہیں کیا لیکن کیا قانون نے پروین کیساتھ اچھا کیا تھا ؟ کیا قانون نے پروین بی بی کیلئے کوئی گنجائش چھوڑی تھی ؟ کہ وہ اسی کا سہا را ہی لے لیتی،آج کٹہرے میں نعمان کی جگہ پروین کھڑی ہے ،گواہ ، ثبوت اور سچ آج سب پروین کے خلاف کھڑے ہیں ،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ عدالتیں مطلب کہ یہ قانون بیچنے والی دکانیں پروین کو بھی کوئی ریلیف دیں گی ،کیا عدالتیں پروین کے کیس میں بھی گواہوں اور ثبوتوں کا ماپ تول کرے گی۔


یہ تو ایک پروین کا واقعہ ہے لیکن اس ملک کے ہر کونے میں ایسے واقعات کا ہوناکسی معمول سے کم نہیں، لوگوں کے ذہن میں بس اک یہی بات ہے کہ دیت دے کر جان چھڑالیں گے یا پھر اسکا آدھ جج صاحب کو دے کر فیصلہ لے لیں گے یا پھر تفتیشی کو کچھ دے کر ساری رپورٹ کو ہی بدلوا لیں گے کہ ملزم نے تو یہ سب کچھ سیلف ڈیفنس میں کیا ۔ یہاں فرد کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ،آدم خور خاندانوں کے خاندان اجاڑ کر اس دنیا کے نشے میں دھت پھر رہے ہوتے ہیں ۔


نقیب اللہ محسو د کیس کا کیا بنا ؟ اسکا باپ جو انصا ف کی امید لگائے بیٹھا تھا کچھ دن پہلے وہ بھی فوت ہو گیا اور قاتل راؤ انوار صاحب ضمانت کی عیاشیاں اینجوائے کر رہے ہیں ،شاہ زیب قتل کیس ؟ یہ تو وہ کیس تھے جن کا نوٹس عدالت عظمی کے چیف جسٹس صاحب نے خود لیا تھا ،کیا بنا بھڑیوں کا ؟؟؟ شاہ رخ جتوئی بھی ضمانت پر ہے اور راؤ انوار بھی ضمانت پر ہے اور کچھ عرصہ تک وہ باعزت بری بھی ہو جائیں گے۔

بلدیہ فیکٹری کیس کا کیا بنا ؟ جس میں سینکڑوں لوگ مر گے ، نہ صرف سینکڑوں لوگ مرے بلکہ سینکڑوں گھر اجڑ گے ، اس سانحے میں کچھ زندگی بھر کیلئے بیوہ ہو گئیں ، کچھ یتیم ہو گے اور کئیوں کے بڑھاپے کے سہارے چھن گئے،سات سے آٹھ سال گز ر گے ، جوڈیشل انکوائری ٹیم کی رپورٹس گرد تلے دبے جا رہی ہیں، کیا بنا ان 258گھروں کا جن کے کفیل ہمیشہ کیلئے انھیں چھوڑ کر چلے گے۔


ماڈل ٹاون میں دن دیہاڑے 14معصوم شہید کر دئیے گے سینکڑوں کو زخمی کر دیا اور ہزاروں کو جھوٹے مقدمے میں جیل بھیج دیا ،قاتل کیونکہ طاقتور ہیں اس لئے 5سال گزر جانے کے بعد بھی ایک بھی مجرم سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ وہی بے گناہ لوگ جن کے بندے مرے تھے وہ پچھلے 5سال سے جیل کاٹ رہے ہیں ۔
مجھے کسی دانشور کا قول یاد آ گیا کہ ”انصاف تمہیں اگلی دنیا میں ملے گا اس دنیا میں تمہیں صرف قانوں ملے گا“یہ محاورہ بلکل ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے کہ انصاف تو اللہ کے ہاں ملے گا یہاں پر تو صرف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے ہی ملیں گے ، کبھی ثبوت اور گواہ ناکافی ہو جائیں گے ، کبھی ٹیکنکل کمزاریاں آ جائیں گی اور کبھی جج صاحب کے ویلاز اور جائیدادیں آڑے آ جائیں گی۔


اس پورے نظام میں صرف عدالتیں ہی قصور وار نہیں بلکہ ہر وہ شخص شامل ہے جس نے اس گندے نظام کے سامنے سر تسلم خم کر لیا ہے ، ہر وہ بندہ شامل ہے جو جھوٹ کے خلاف گواہی دے کر سچ کیساتھ کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا ،اگر ہم میں سچ کیساتھ کھڑا ہونے کی ہمت ہوتی تو تو پروین کیس میں ہائیکورٹ کو گواہوں اور ثبوتوں کی کمی محسوس نہ ہوتی ،ہر وہ کالی پیلی وردی والا قصوروار ہے جس نے اس ملک کی عوام کے تحفظ کا عہد کیا تھا اور آج اس کی کاروائی صرف اور صرف غریب کیلئے ہی ہے،قصوار ہیں وہ قاضی جن کے جبعوں کی جیبیں توگرم رہتی ہیں لیکن غریب انصاف کی امید لگائے لگائے اپنے دن پورے کر لیتا ہے، قصور وار ہے ہر وہ سیاسی حاکم جس کی پالیسیاں صرف اور صرف طاقتوار کو تحفظ دیتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :