کیا ہم آزاد ہیں؟

منگل 5 جنوری 2021

Saad Ud Din Shah

سعد الدین شاہ

جمہوری عمل کسی بھی ملک کا حُسن ہوتا ہے۔ جمہوریت سے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں. لیکن آج بھی کچھ ممالک حقیقی جمہوریت کے بجائے کنٹرولڈ جمہوریت کی راہ پرچل رہے ہیں ۔ہمارا ملک پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے. یہاں کبھی مارشل لا لگا دیا جاتا ہے تو کبھی منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جاتا ہے. یہاں بات جمہوریت کی کی جاتی ہے لیکن کسی بھی مسئلے کا حل عسکری حلقوں سے کروایا جاتا ہے.

یہاں ایک طرف عسکری حلقوں کی سیاست میں مداخلت پر سخت تنقید کی جاتی ہے تو دوسری طرف عسکری حلقوں کی نگرانی میں الیکشن بھی کروائے جاتے ہیں. یہاں ظاہری طور پر عسکری حلقوں پر تنقید ہوتی ہے اور چھپ کر ان سے ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں. یہاں خود آرمی چیف کو ایکسٹنشن بھی دی جاتی ہے لیکن پھر اسی ایکسٹینشن پر تنقید بھی کی جاتی ہے. یہاں پہلے اشیاء کی قیمتیں 60 سے 120 روپے کلو کی کی جاتی ہیں اور پھر اس میں سے 20 روپے کمی کی جاتی ہے تاکہ عوام کو لگے مہنگائی کم ہو رہی ہے.

60 سے 120 روپے کر کے پھر 20 روپے کم کر کے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے اور اس فیصلے پر شادیانے بھی بجاہے جاتے ہیں. یہاں عوام کی توجہ مسائل یعنی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے ہٹانے کے لئے دوسروں کو چور ڈاکو اور خود کو احتساب کا علمبردار کہا جاتا ہے. یہاں اپنے مفادات کے لیئے لوگوں کو جان لیوا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں میڈیا پر سب اچھا ہے دکھانے کے لئے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو علم وادب کے بجائے گالم  گلوچ کے ماہر ہوتے ہیں.

یہاں عوام کی محبت لینے کے لیے انڈیا سے جھڑپوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہاں ووٹ لینے کے لیے دین اور ریاست مدینہ کا خواب دکھایا جاتا ہے لیکن  خواب ِدکھانے والے کی زندگی خود سیکولر ہوتی. یہاں سوال کرنے والے کو غدار اور اپنا حق مانگنے والے کو دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ  سے اچھے تعلقات رکھنے والے کو ملک کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے اور جس کے تعلقات خراب ہوں اس کو جیل بھیج دیا جاتا ہے.

یہاں قائد اعظم کے پاکستان کی بات کی جاتی لیکن کام پاکستان بننے سے پہلے انگریزوں کی غلامی والے کیے جاتے ہیں.اس کی ایک واضح مثال  PDM کے جلسے ہیں۔ان جلسوں میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک ادارے کا سیاست میں کردار ختم کرنے کی بات کی ہے بجاۓ اس کے کہ ان پر غداری اور بغاوت کے فتوے لگائے جائیں اس سے بہتر یہ ہے کہ ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور گفتگو شنید کے ذریعے اس مسئلے کا کوئی جمہوری حل نکالا جائے۔سیاست میں کردار کی بات پاکستان کے جس ادارے سے متعلق کہی جارہی ہے اس کی ساکھ ہمارے لئے مقدم ہے اور ہمارے دلوں میں اس کے ادارے کے لیے خاص محبت ہے کیونکہ اس ادارے میں ہمارے ملک کے ہی لوگ ہیں۔اگر ساکھ برقرار رکھنی ہے تو گفت و شنید کا راستہ اختیار کریں ورنہ لوگوں کے دلوں سے محبت جاتی رہے گی جس کا نقصان ریاست کو اور فائدہ انڈیا اور دیگر ملکوں کو ہوگا۔ملک کو داخلی انتشار سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دانشمندی سے گفت و شنید کا راستہ اپنایا جائے یہی ملک و قوم کی بقا کا راستہ ہے۔ورنہ اگر  یہاں ایسے ہی چلتا رہا تو غلامی کا وہ دور پھر سے آ جائے گا اور یہ لوگ اس غلامی میں خوش رہیں گے.

کیوں کہ آزادی اور جمہوریت دانش مند قوم کے لیے ہوتی ہے غلاموں کے لئے نہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :