کم عمری کی شادیاں

بدھ 5 اگست 2020

Saif Awan

سیف اعوان

گزشتہ روز لاہور کے میو ہسپتال میں میری ملاقات ایک رحیم یار خان کی بزرگ خاتون سے ہوئی ۔وہ سخت گرمی میں ایک پتھر کے بینچ پر بیٹھی اور کافی پریشان دیکھائی دے رہی تھی۔وہ بار بار اپنے ڈوپٹے سے ہوا لے رہی تھی۔میں نے اس بزرگ خاتون کے چہرے پر پریشانی کے اثرات دیکھے تو میں فوراکینٹین کی طرف چل پڑا اور وہاں سے دو جوس لیے ان کے پاس آیا اور ان کو جوس دینے کی کوشش کی لیکن اس بزرگ خاتون نے جوس پکڑنے سے انکار کردیا ۔

اس کی سب سے بڑی ہماری معاشرے میں کچھ نوسرباز وں نے انسانی ہمدردی کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانا اور لوٹنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے اس بزرگ خاتون نے جوس پکڑنے سے انکار کیا۔میرے اسرار پر اس خاتون نے جوس پکڑ لیا میں نے بھی ایک جوس کھولا اور ان کے پاس بیٹھ کے پینا شروع کردیا ۔

(جاری ہے)

میں نے اس خاتون سے پوچھا کہ آپ یہاں کسی کے ساتھ آئی ہیں؟ ۔

معمر خاتون بولی ہاں بیٹا میری بیٹی کی آج رات کو ڈیلیوری ہے اور میں اس کو رحیم یار خان سے لاہور لے کر آئی ہوں۔وہاں سرکاری ہسپتال میں بھی ڈاکٹرزنے بچے کی ڈلیوری کیلئے آپریشن کرنے کی بھاری رقم مانگی جو میں نہیں دے سکتی تھی اس لیے میں اپنی بیٹی کو لاہور لے کر آئی ہوں کیونکہ یہاں سب کچھ مفت ہوگا۔میں نے پوچھا ماں جی آپ کی بیٹی کا شوہر یا آپ کا کوئی بیٹا وغیر ہ آپ کے ساتھ ہے ؟تو وہ بزرگ خاتون رو پڑی ۔

کافی دیر رونے کے بعد وہ خاتون بولی ۔بیٹا میں جب 14سال کی تھی تو میرے والدین نے میری شادی ایک چالیس سال کی عمر کے شخص سے کردی ۔میں نے پہلی مرتبہ اپنے شوہر کو شادی کے اگلے دن دیکھا ۔مجھے اگلے دن پتہ چلا کہ میرے شوہر کے پہلے سے دو بچے ہیں اور اس کی پہلی بیوی انتقال کرچکی ہے ۔آج میری عمر ستر سال سے زائد ہو گئی ہے اور میں نے 17بچے پیدا کیے جن میں سے 12انتقال کرکے اور 5زندہ ہیں ۔

ابھی میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ان سب کی شادیاں ہو چکی ہیں اور بیٹے بھی اب الگ الگ رہتے ہیں ۔میں نے پوچھا ماں جی آپ کی بیٹی کا شوہر کہاں ہے وہ ساتھ نہیں آیا ۔اس خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ خبیث نشہ کرتا ہے اور کچھ کام وام بھی نہیں کرتا۔مجبورا مجھے ہی اپنی بیٹی کو یہاں لانا پڑا ہے۔میں نے پوچھا آپ کی اس بیٹی کی شادی کتنی عمر میں ہوئی اس سوال کا جواب میرے لیے پریشان کن تھا ۔

اس خاتون نے بتایا کہ میری اس بیٹی کی شادی مجھ سے بھی ایک سال کم کی عمر میں ہوئی اس کے والد نے زبردستی اس کی شادی کی تھی ۔
ایک دوسرا واقعہ اور پریشان کن ہے ۔ایک دن شام کے وقت جب میں گھر پہنچاتو دیکھا کہ ہمارے گھر کے قریب کافی لوگوں کا رش تھا ۔میں گھر کے اندر داخل ہوا اور امی سے پوچھا باہر یہ سب لوگ کون ہیں تو میری امی نے بتایا کہ حنیف کی بیٹی کی شادی ہے ۔

میں یہ بات سن کے حیران ہوگیا میں نے کہا امی ابھی تک اس کی بیٹی بہت چھوٹی ہے اس کی شادی کی عمر بھی نہیں ہے۔امی کہنے لگیں کہ بیٹا اب اس کے والدین کی مرضی ہے وہی شادی کررہے ہیں میں نے توا س کے والدین کو کہا تھا کہ ابھی (س) کی شادی نہ کریں لیکن وہ دونوں باضد تھے۔میں یہاں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ ابھی (س) کی عمر صرف 15سال تھی ۔شادی کے چار دن بعد میری اس بچی کے والد سے ملاقات ہوتی تو میں نے اس کو کہا یار ابھی تمہاری بیٹی کی عمر 18سال نہیں ہوئی اور نہ وہ ابھی بالغ ہے تم نے اس کی شادی کیوں کی ۔

اس نے کہا سیف بھائی لڑکی کابیاہ جتنی جلدی ہوسکے کردینا چاہیے ۔میرے لیے ایک والد کا اپنی کم عمر بیٹی کیلئے یہ جواب پریشان کن تھا۔اس سب سے بڑھ کر ایک اور خوفناک بات یہ تھی کہ پھر اچانک پانچ یا بامشکل چھ ماہ بعد اس لڑکی کو طلاق ہوگئی اور وہ دوبارہ اپنے باپ کے گھر واپس آگئی ۔یہ دو الگ الگ کہانیاں میرے ذاتی مشاہدے کی ہیں ۔یقینا آپ لوگوں نے بھی اپنے اردگرد ایسی بہت سی کم عمری کی شادیاں دیکھی ہوں گی۔

کم عمری کی شادی ماں اور بچے کی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہوتی ہے ۔کم عمر لڑکی جسمانی اور دماغی طور پر اتنی صحت مند اور مچور نہیں ہوتی ۔اکثر والدین جلد بازی میں اپنی بیٹیوں کی شادیاں کردیتے ہیں جو بعد میں انہی والدین کیلئے پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔
پاکستان میں کم عمر ی کی شادیوں کے واقعات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑتے جارہی ہیں ۔چائلڈ میرج پر کام کرنے والی ایک سماجی خاتون صبیحہ شاہین جو گزشتہ کئی سالوں سے اس ایشو پر کام کررہی ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک چائلڈ میرج ایکٹ 1929موجود ہیں لیکن یہ ایکٹ پاکستان سے بننے سے قبل ہے ۔موجودہ دور میں ہر چیز جدید اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہورہی ہے لیکن پاکستان میں ابھی 1929کا چائلڈ میری ایکٹ ہی چل رہا ہے۔حکومت کو اس ایکٹ میں ترمیم کرنی چاہیے یہ ایک بہت سنجیدہ اور اور اہم نوعیت کا معاملہ ہے ۔شادی سے قبل ایک لڑکی کی رائے کے بارے میں جاننا اور اس کا بالغ ہونا لازمی قراردیا جانا چاہیے ۔

لڑکی کی شادی کیلئے کم از کم عمر 18سال مقرر کرنی چاہیے۔میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن سعدیہ سہیل ،سمیرا احمد بخاری اور مسلم لیگ (ق) کی رکن خدیجہ عمر فاروقی نے بھی اس حوالے سے ایک قرارداد جمع کرائی کہ ”لڑکیوں کیلئے شادی کی عمر 16سال سے بڑھاکر 18سال مقرر کی جائے۔کم عمری کی شادیاں لڑکیوں کو بنیادی تعلیم سے محروم کرتی ہیں۔

کم عمری کی شادی پڑے لکھے،صحت مند اور خوشحال گھرانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں“۔حکومت کواس انتہائی حساس معاملے پر غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔سمجھدار،بالغ اور تعلیم یافتہ ماں ہی خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کو جنم دے سکتی ہے ایک کم عمر اور نابالغ لڑکی کبھی بھی خوشحال معاشرے کی بنیاد نہیں رکھ سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :