کیا پنجاب میں ہلچل مچنے والی ہے؟

جمعہ 4 ستمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

تحریک انصاف کے چیئر مین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان نے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کو جب وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا تو ہر طرف ایک بھونچال سا آگیا۔دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے لوگوں کیلئے بھی عمران خان کی جانب سے یہ اعلان حیران کن تھا۔تحریک انصاف میں اس وقت علیم خان پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے مضبوط ترین امیدوار تصور کیے جارہے تھے۔

ان کے بعد میاں اسلم اقبال،راجہ یاسر ہمایوں،مراد راس،حسنین دریشک سمیت کئی اور نام بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے سامنے آرہے تھے۔عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی پارٹی کے لوگوں کیلئے بھی ناقابل قبول لگ رہی تھی لیکن بعدازران عمران خان کے فیصلے کو سب نے تسلیم کیا۔

(جاری ہے)

عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ پنجاب نامزد ہونے کے بعد میڈیا نے بھی اپنی توپوں کارخ عثمان بزدار کی طرف کرلیا۔

عثمان بزدار پر قتل کے مقدمے میں ادیت ادا کرنے اور کرپشن سمیت کئی طرح کے الزامات سامنے آئے۔عثمان بزدار 17اگست 2018کوجب پہلی بار پنجاب اسمبلی پہنچے تو میری ان سے پہلی ملاقات اسمبلی میں ہی ہوئی۔اس وقت عثمان بزدارسے میری اس لیے آسانی سے ملاقات ہوئی گئی کیونکہ ان کے ساتھ پروٹوکول نہیں تھا وہ چوہدری پرویز الٰہی سے ملنے اسمبلی پہنچے تھے۔

میں عثمان بزدار سے پوچھا کہ ”بزدار صاحب آپ کو وزیراعلیٰ نامزد ہونے پر کیسا لگ رہا ہے اور کیا آپ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ چلانے کیلئے تیار ہیں“۔عثمان بزدار نے جواب دیا ”میں چیئر مین عمران خان کا شکر گزار ہوں جہنوں نے مجھے اس اہم ترین منصب کیلئے نامزد کیا ہے میں پنجاب جیسے بڑے صوبے کو چلانے کیلئے تمام توانائی صر ف کردوں گا لیکن مجھے اتنا بڑا صوبہ چلانے کیلئے میڈیا کا بھی ساتھ چاہیے ہوگا“۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ایک گفتگو کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں لیکن میڈیا کی جانب سے ابھی تک عثمان بزدار کو دل سے وزیراعلیٰ پنجاب قبول نہیں کیا گیا۔
پہلا سال عثمان بزدار نے خاموشی سے گزاردیا لیکن اب عثمان بزدار بھی کافی متحرک ہو چکے ہیں ۔عثمان بزدار اب روزانہ کی بنیاد پر پنجاب کے مختلف اضلاع کے دورے بھی کررہے ہیں اور پارٹی رہنماؤں اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں بھی شروع کردی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی نیب بھی عثمان بزدار کیخلاف آج کل کافی متحرک ہو چکا ہے۔

نیب کی جانب سے سب سے پہلا کیس ایک غیر معروف نجی ہوٹل کو شراب لائسنس جاری کرنے پر بنایا گیا اب دوسراکیس گندم اور چینی کا بھی بن چکا ہے جس میں عثمان بزدار کا نام سر فہرست آرہا ہے۔ایک طرف نیب کی پھرتیاں چل رہی اور دوسرے طرف عثمان بزدار بھی اب نمایاں ہونے لگے ۔پنجاب کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر ہلچل مچنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔مقتدر حلقوں کی جانب سے بھی عمران خان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ کسی مضبوط شخص کو وزیراعلیٰ بنایا جائے لیکن عمران خان باضد ہیں ۔

مقتدر حلقوں کی جانب سے عثمان بزدارکی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔عمران خان کی مسلسل عثمان بزدار کو تھپکی مقتدر حلقوں اور حکومت میں دوریاں پیدا کرسکتی ہیں ۔جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے محسن لغاری اور حسنین دریشک کی عثمان بزدار سے ناراضگیاں بھی سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں فی الحا ل مزاری قبیلہ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑا ہے۔جبکہ علیم خان اور راجہ بشارت بھی کافی متحرک ہو گئے ہیں ۔

راجہ بشارت ایک ماہ کے دوران وزیراعظم عمران خان سے دو ملاقاتیں کرچکے ہیں اور پنجاب میں قانون سازی کے حوالے سے اپنی کارکردگی سو فیصد درست سمت جاتے ہوئے کی رپورٹ پیش کرچکے ہیں ۔علیم خان وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی بجائے گراؤنڈ پر اپنی پوزیشن مضبوط اور مستحکم کررہے ہیں ۔
فی الحال پنجاب میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔

شہبازشریف کی صاحبزادے حمزہ شہباز جو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں وہ آج کل پنجاب اسمبلی میں پروڈکشن آڈر پر پہنچتے ہیں اور خوب سیاسی ملاقاتیں بھی کررہے ہیں لیکن ان کا بھی عثمان بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے ابھی کوئی موڈ نہیں ہے۔ذرائع بتاتے ہیں ستمبر میں حمزہ شہباز کو سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کا امکان ہے۔حمزہ شہباز کے ایک قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ضمانت ملنے کے بعد بھی حمزہ شہباز عثمان بزدار کو ہٹانے کی پلائننگ نہیں کرینگے کیونکہ ابھی مسلم لیگ(ن) پنجاب میں کسی قسم کی تبدیلی کی خواہاں نہیں ہے وہ فی الحال سسٹم کو چلنے دینا چاہتی ہے۔

جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کھل کر عثمان بزدار کی حمایت کررہے ہیں ۔
اب بال عثمان بزدار کی اپنی کورٹ میں داخل ہو چکا ہے ۔وہ خود کو کب تک پنجاب کا وزیر اعلیٰ برقرار رکھ سکتے ہیں یہ فیصلہ ان کو کرنا ہے۔موجودہ حالات میں پرفارم کرکے دیکھانے کا بھی ایک سنہری موقعہ ہے۔عثمان بزدار کھل کر میدان میں آئیں اور زیر تعمیر اور التواء شدہ منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کریں ۔کیونکہ اگر عثمان بزدار نے ڈلیور کرنا شروع کردیا تو ان کی پارٹی بھی ان کے ساتھ ڈٹ کے کھڑی ہو گی اور نیب بھی شاید ٹھنڈی پڑ جائے ہاں اگر عثمان بزدار نے ابھی بھی ڈلیو ر کرنا شروع نہ کیا تو عمران خان بار بار لاہور تھپکی دینے نہیں آسکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :