جبری غلامی اور صاف ستھرا کرائم

جمعرات 10 ستمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

لوگوں کو بیوقوف بنانے،جھانسہ دینے ،ذہنی غلام بنانے اور اپنے فائدے کیلئے دوسروں کا مستقبل داؤ پر لگانے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا۔آپ کے آس پاس ایسے لوگوں کی اکثریت ہوگی جن کوکوئی دوست،دوست کا دوست،قریبی رشتہ داریا دور قریب کے جاننے والاشخص جھانسہ دے چکا ہوگا ۔شاید زندگی میں کسی نے آپ کوبھی جھانسہ دیا ہو یا بیوقوف بنایا ہو۔

لوگوں کو بیوقوف بنانے کا فن ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا۔جھانسہ دینے والوں افراد نے بھی کوئی سپیشل قسم کی ڈگریاں لی ہوتی ہیں ۔یہ لوگ اگر کبھی پکڑ جائیں تو اپنے استادوں کے بارے بھی بہت کم معلومات شیئر کرتے ہیں۔ یاد رہے اکیلا آدمی کبھی کسی کو خود ساختہ طور پر جھانسہ نہیں دے سکتا یا کسی کو بیوقوف نہیں بناسکتا۔اس کے پیچھے کسی پاور فل شخصیت کا ہاتھ لازمی ہوتا۔

(جاری ہے)

ہاں چھوٹے موٹے فراڈیے اور چور چکے جو چھوٹی دیہاڑیاں لگاتے ہیں وہ زیادہ تر افرادی طور پر ہی کاروائیاں ڈالتے ہیں ۔
اس جدید دور میں بھی لوگوں کو ذہنی طور پر غلام بنانے والے افراد کی اکثریت کم نہیں ہے ۔ذہنی طور پر غلام بنانے والے افراد میں بھٹہ مالکان بھی سر فہرست ہیں ۔بھٹہ مالکان نے کئی خاندانوں کو ذہنی طور پر غلام بنایا ہوتا ہے ۔

کسی غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا خاندان اگر ایک بار بھٹہ مالکان کا غلام بن جائے تو اس کی آنے والی نسلیں بھی اس مالک کی غلام رہتی ہیں ۔ایسے ہی ایک بھٹہ مزدوردین محمد جو جلو موڑ لاہور کے علاقہ میں ایک بھٹے پر کام کرتے ہیں جن کی اس وقت عمر تقریبا 65سال کے لگ بھگ ہوگی ۔دین محمد گزشتہ تیس سالوں سے اس بھٹے پر کام کررہے ہیں ۔اس بھٹے پر کام کرتے ہوئے ان کی شادی بھی ہوئی اور پانچ بچے بھی پیدا ہوئے اور وہ آج بھی اس بھٹے پر کام کررہے ہیں ۔

دین محمد کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جن میں سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی اسی بھٹے پر آج کام کررہے ہیں۔دین محمد کے والد نے اس کی شادی کیلئے بھٹے کے مالک سے پانچ ہزار قرض لیا ۔پھر دین محمد کی بیٹیاں جب جواں ہوئی اس نے ان کی شادیوں کیلئے بھی قرض لیے ۔دین محمد کے اہلخانہ پر اس وقت بھٹے کے مالک کا ٹوٹل پانچ لاکھ کے قریب قرض ہے۔دین محمد کے تینوں داما بھی اسی بھٹے پر کام کرتے ہیں جبکہ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا نشہ کرتا ہے اور وہ بھٹے پر کام کرنا پسند نہیں کرتا۔

دین محمد اور اس کی پوری فیملی آج بھی کئی سالوں بعد مالک کا قرض اتارنے میں لگی ہے ۔
دوسری جانب لوگوں کو جھانسہ دینے والے اوربیوقوف بنانے والے افراد نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے طریقہ واردات تبدیل کرلیے ہیں۔ایسے وارداتیوں کی اب اکثریت لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے اور سیٹل ہونے کے خواب دے کر لوٹتے ہیں ۔یہ سب سے صاف ستھرا کرائم ”طریقہ واردات “ہے ۔

ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی اکثریت ہیں جو امریکہ اور یورب میں نوکری کے خواب سجائے اپنے والدین کی زندگی بھر کی جمع پونچی ایسے ہی کسی فراڈیے کے حوالے کردیتے ہیں جو ان کو ترکی،اٹلی،یونان،سمیت کئی دیگر ملکوں میں بھیجنے کیلئے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں ۔کچھ فراڈیے تو نوجوانوں کو چور چھپے یورپی ممالک بھیجتے ہیں ان لوگوں کا راستہ انتخاب زیادہ تر زمینی یعنی پہاڑوں کے راستے یا بحری جہاز میں نوجوانوں کو چھپاکر یورپ بھیجتے ہیں۔

ان فراڈیوں میں سب سے مضبوط عصاب کے مالک سفید کالر کرائم والے ہوتے ہیں جو لوگوں کو جعلی کاغذات مطلب،ویزے،بورڈنگ کارڈ ،پاسپورٹ سمیت دیگر اہم دستاویزات تیار کرکے دیتے ہیں جبکہ جعلی کاغذات وصول کرنے والے کواس وقت معلوم ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ جعلی ہیں یا اصلی۔اس کو ان دستاویزات کے جعلی ہونے پتہ اکثر ایئر پورٹ ہی جاکے معلوم ہوتا ہے۔ایسے ہی دو نوجوان کے کیسز مجھے لاہور کی سپیشل کورٹ میں ملے ہیں جن کو جعلی دستاویزات کے ذریعے بیرون ملک بھیجنے کی کوشش کی گئی۔

جبکہ ان دو نوجوانوں نے باقاعدہ اصل دستاویزات اور قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کیلئے ایجنٹس کو پیسے دیے۔
عمران جمعہ ولد جمعہ خان 2015سے بیرون ملک مقیم تھا۔یکم اگست 2019کو پاکستان آتے وقت اٹلی امیگریشن حکام نے ریزیڈنٹ کارڈ ضبط کرکے عمران کوہوم آفس اٹلی سے رابطہ کرنے کا کہا ۔عمران جمعہ کی نپولی ایئرپورٹ پر بنگالی ایجنٹ سے ملاقات ہوئی۔

بنگالی ایجنٹ نے 200یورو لے کرعمران کو ریزیڈنٹ کارڈ بنادیا۔عمران جمعہ 9اگست 2019کو روم ایئرپورٹ سے واپس پاکستان آیا اور کورونا وائرس کی وجہ سے اوور سٹے ہوگیا ۔اوور سٹے ہونے کی وجہ سے عمران جمعہ نے اٹلی میں اپنے دوست فیصل سے بات کی جس نے بلال صغیر نامی شخص کا رابطہ نمبر دیا جو راولپنڈی کا رہائشی تھا۔عمران جمعہ نے ایئرپورٹ کلیئرنس کیلئے 60ہزار دیے اور ایک لاکھ بیس ہزار ٹکٹ کیلئے دیے۔

عمران جمعہ نے 12اگست کو اٹلی کے (Carta Di Identita)کارڈ پر بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کی ریزیڈنٹ کارڈ جعلی ہونے کی وجہ سے ایمرئٹس سیکیورٹی حکام نے کارڈ ضبط کرکے انڈر چیک شیٹ واپس پاکستان ڈیپورٹ کردیا۔جبکہ دوسرا کیس عدنان ریاض ولد ملک محمدریاض وزیرآباد کے رہائشی کاہے۔جس کا اٹلی کا سجورنو کارڈجعلی اور پاکستانی پاسپورٹ کے صفحہ نمبر 11پر امیگریشن سٹمپ آرائیول جعلی پائی گئی۔

عدنان ریاض اٹلی جانے کا خواہش مند تھا ۔عدنان ریاض کی ناصر محمود دیوان کوٹ وزیرآباد کے رہائشی سے ملاقات ہوئی ْجس نے دس لاکھ کے عوض اٹلی پہنچانے کی بات طے کی۔ناصرنے عمران کو وٹس ایپ کے ذریعے ایمرٹس ایئرلائن کی ٹکٹ دی اور بعدازراں ناصر نے خود آکر اٹلی کا سجورنوکارڈ رعدنان ریاض کو دیا۔عدنان نے جب ایمرٹس ایئر لائن پر سفر کرنے کی کوشش کی تو ایئرلائن بورڈنگ امیگریشن کاؤنٹر پر موجود آفسر نے سفری دستاویزات جعلی ہونے کی بناء پر عدنان ریاض کو روک لیا ۔

تحقیقات کے بعد معلوم ہوا عدنان ریاض کا اٹلی کا سجورنو اور ریذیڈنس کارڈ جعلی ہیں۔ یہ صرف دو کیسز ہیں ایسے کئی کیس ایف آئی اے کے پاس آتے ہیں #۔لاہور کی سپیشل کورٹ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ سال 2019میں ہمارے پاس ایسے سینکڑوں کی تعداد میں کیسز آتے رہے ہیں جن کو ایجنٹس نے جھانسہ دے کر پیسے بٹورے ۔لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے انٹر نیشنل فلائٹس بند ہو گئی جس کی وجہ سے رواں سال کے آٹھ ماہ میں ہمارے پاس صرف چھ کیسز آئے ہیں ۔

اس کی سب سے بڑی وجہ اب ایف آئی اے نے طریقہ کار تبدیل کردیا ہے ۔ایف آئی اے حکام ڈیپوٹی کو ایئر پورٹ سے ہی چھوڑ دیتے ہیں اور ایجنٹس کیخلاف مقدمہ درج کرتے ہیں ۔یہ طریقہ چار ماہ قبل ایف آئی اے نے بنایا ہے ۔جس کی وجہ سے عدالت پر بوج بھی کم ہو گیا۔اہلکار نے ایک اور انکشاف کیا کہ لاہور کی سپیشل عدالت میں گزشتہ تین ماہ سے کوئی جج ہی تعینات نہیں ہے جو ایجنٹس سے متاثرہ افراد کے کیسز سن سکے۔

جج کی تعیناتی وفاقی وزارت قانون کے حکم سے ہونی ہے جس کی وجہ سے معاملہ التواء میں ہے۔
وزارت قانون ،وزارت لیبر اور دیگر متعلقہ وزارتوں کوجبری غلامی اورایجنٹس مافیا کے خاتمے کیلئے اپنی ذمہ داریاں جلد از جلد پوری کرنا ہونگی ۔بھٹہ مزدوروں اور بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنے والے افراد کو جھانسہ دینے والے کیسز تو الگ ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر سادہ لوح شہریوں کے ساتھ زیادتی ،استحصال اور ناانصافی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔اگر ادارے اپنی ذمہ داریاں بروقت اور احسن طریقے سے سر انجام دیں اور ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کریں تو ایسے” صاف ستھراے کرائم “کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :