والیم ٹین کی حقیقت

جمعہ 25 ستمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

پانامالیکس کے حوالے سے جو جے آئی ٹی تشکیل دے گئی اس کی تحقیقات کا طریقہ کار سیف الرحمن کے احتساب کمیشن سے کچھ زیادہ ہی جدید تھا۔جے آئی ٹی جو بھی کام کرتی اس کو میڈیا کے سامنے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے نوازشریف اور ان کی فیملی واقع کرپٹ ترین ہے۔جس روز نوازشریف فیملی کے جس فرد کی جے آئی ٹی میں پیشی ہوتی اس سے اور گواہوں سے پوچھے سوالات ایسے میڈیا میں پیش کیے جاتے جیسے ان کیخلاف کرپشن کے بہت اہم ثبوت مل گئے ہیں۔

جے آئی ٹی نے نوازشریف کی فیملی اور گواہوں سے پوچھے سوالا ت اور ارکان کی رائے کو بھی بطور”ثبوت“ پیش کیا۔جے آئی ٹی نے اپنی کاروائی کے اختتام پر عدالت کو دس والیومز پر مشتمل فائنڈنگز پیش کیں۔ان میں سے نو والیومز میں جے آئی ٹی کے ارکان کے تبصرے،آراء ،الزامات اور سورس پیپرز تھے۔

(جاری ہے)

جبکہ جے آئی ٹی ارکان کے تبصروں اور آراء کو میڈیا میں ایسے پیش کیا جاتا جیسے نوازشریف فیملی کیخلاف ناقابل تردید ثبوت مل گئے ہیں ۔

حالانکہ جے آئی ٹی کے خود اپنے الفاظ میں یہ محض ان کے اندازے تھے ۔جے آئی ٹی ارکان کے الفاظ بھی ”ایسا لگتا ہے“،بادی النظر میں اور نظر بظاہر“ وغیرہ استعمال کیے گئے۔عدالت میں پیش کیے گئے ”ڈبے“ والیومز کے اوپر موٹے موٹے الفاظ میں ”Evidence“لکھا ہوتا۔تاکہ میڈیا جب عوام کو وہ ڈبے دیکھائے تو ایسے لگے ان میں نوازشریف فیملی کیخلاف بہت ہی اہم قسم کے اور ناقابل تردید ثبوت پیش کیے جارہے ہیں جبکہ یہ سب جے آئی ٹی ارکان کی رائے پر مشتمل کاغذات تھے۔

اصل میں ان والیومز میں سب کچھ موجود تھا لیکن سوائے ثبوتوں کے۔یہ تھی عدالت میں پیش کیے نو والیومز کی حقیقت اور اہم ثبوتوں کی اصلیت۔
جبکہ والیومز ٹین کے حوالے سے بھی شک ہی پیدا کیا گیا یوں ظاہر کیا گیا کہ اس والیوم میں سب سے زیادہ اہم ترین ثبوت ہیں ۔حالانکہ اس میں محض وہ خطوط تھے جو برطانیہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں کو لکھے گئے تھے جن کے جواب ابھی آنا باقی تھے اور جو نہ آئے اور نہ ہی آئیں گے۔

جے آئی ٹی نے نو ممالک کی حکومتوں کو خط لکھے جن میں سے سات ممالک نے جواب ہی نہ دیے جبکہ دو ممالک نے جوابا سوال کیا ”پہلے ہمیں یہ بتایا جائے کہ جرم کیا ہوا ہے؟“۔جے آئی ٹی جرم کیا بتاتی کیونکہ جرم کی تو ابھی تلاش کی جارہی تھی۔والیوم ٹین میں برطانیہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں کولکھے خطوط جن کے ابھی جواب آنا باقی تھے لیکن اس کے بارے میں آج بھی یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس میں نوازشریف فیملی کیخلاف بہت اہم ثبوت موجود ہیں جو ان کے مجرم ہونا ثابت کرتے ہیں ۔

ایک روز عدالت میں پیشی کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کو والیوم ٹین میں موجود مواد کی نقول فراہم کی جائیں ۔عدالت نے جوابا کہا نقول فراہم نہیں کی جاسکتی ہاں ان پیپرز کو وکیل ہی دیکھ سکتا ہے۔خواجہ حارث نے جب دیکھا تو اس ڈبے میں سوائے مختلف ممالک کو لکھے خطوط تھے جن کے ابھی جواب آنا باقی تھے اور کچھ نہیں تھا۔

خواجہ حارث نے جلدی سے کہا ”ٹھیک ہے ٹھیک ہے اس کو جلدی سے بند کردیں “۔بعد میں میڈیا کو یہ خبر لیک کی گئی کہ نوازشریف کے وکیل نے بھی اہم ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں ۔یوں پاناما لیکس کا کیس عدالت سے کہیں زیادہ میڈیا پر لڑا گیا اور نوازشریف فیملی کا میڈیا ٹرائل کھلے عام کیا گیا ۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ کیس میں تو کوئی جان نہیں ہے بس رائے عامہ کو نوازشریف کیخلاف ہموار کیا جائے۔

اس سلسلے میں نوازشریف کے مخالف سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں خوب مدد فراہم بھی کی جاتی رہی۔
حقیقتا جے آئی ٹی کا جمع کردہ اور پیش کردہ مواد بہت شاندار تھا لیکن صرف پروپیگنڈے کے نقطہ نظر سے اور عدالت میں اس سارے مواد کی حیثیت ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں تھی۔ان والیومز میں ثبوت نہیں تھے ”محض سورس پیپرز،اندازے ،مفروضے اور الزامات تھے ۔عدالتیں ہمیشہ انداروں ،مفروضوں اور الزامات نہیں ثبوتوں پر فیصلے دیتی ہیں لیکن پاناما لیکس پاکستان کی تاریخ میں شاید واحد عدالتی کیس ہوگاجس میں نوازشریف اور ان کی فیملی کو محض مفروضوں اور الزامات کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :