میکارتھی ازم

جمعرات 10 جون 2021

Saif Awan

سیف اعوان

دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ خوب زوروں پر تھی۔ان دنوں امریکہ میں ایک خاص ماحول بناہوا تھا۔اس ماحول کو آج دنیا”میکارتھی ازم “کے نام سے جانتی ہے۔اس مشن کو امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی لیڈ کررہا تھا۔سینیٹر میکارتھی نے امریکی حب الوطنی کو بڑی چالاکی کے ساتھ کمیونلزم سے جوڑ دیا تھا ۔اس نے ایک لسٹ بنائی جس میں سینکڑوں سرکاری عہدیداروں کے نام تھا۔

اس معاملے میں میکارتھی کو ایف بی آئی کی مدد بھی حاصل تھی۔میکارتھی کے مطابق یہ وہ لوگ تھے جو امریکہ کے وفادار نہیں تھے یا ان کی حب الوطنی پر شک تھا۔یہ سینیٹر اتنا پاور فل تھا کہ اس نے امریکی صدر ہنری ٹرو مین سے ایک صدارتی حکم نامہ بھی جاری کروادیا جس کے مطابق ان تمام سرکاری عہدیداروں کو وطن سے محبت کا ثبوت دینا لازمی تھا۔

(جاری ہے)

جوزف میکارتھی اور ایف بی آئی کو لوگوں کو گرفتار کرنے کیلئے ثبوت نہیں صرف الزام چاہیے تھے۔

سینیٹر میکارتھی کے ریڈار میں جو ایک بار آجاتا وہ صفائیاں دیتا رہتا کہ میں کمیونسٹ نہیں محب وطن امریکی شہری ہوں۔میکارتھی ازم کا نشانہ صرف سرکاری ملازم ہی نہیں بڑے بڑے نامور سیاستدان،گلوکار،ہالی ووڈ کے اداکار،پروڈیوسر اور ڈاکٹر بھی بن رہے تھے۔سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ میکارتھی کا نشانہ مشہور زمانہ مزاحیہ فنکار چارلی چپلن بھی بن گئے۔

چارلی چپلن پر بھی روسی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا۔پھر چارلی چپلن مرتے دم تک اپنی حب الوطنی کی صفائیاں پیش کرتا رہا۔چارلی چپلن کی تمام جائیداد ااور بیوی امریکہ میں تھی وہ فلموں کی شوٹنگ کیلئے نیویارک بھی آتا تھا۔آخر کار چارلی چپلن نے 1953میں امریکہ آنا ہی چھوڑ دیا۔چارلی نے امریکہ چھوڑنے سے پہلے باقاعدہ ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں چارلی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

پھر چارلی ہمیشہ کیلئے سوئزرلینڈ شفٹ ہوگیا۔چارلی کا انتقال بھی سوئزرلینڈ میں ہوا اور ان کی قبر بھی وہاں ہی بنائی گئی۔میکارتھی ازم اس حد تک شدت اختیار کرگیا کہ ان کو پولیو ویکسین بھی روسی سازش ہی لگنے لگی۔امریکی اخباروں میں باقاعدہ پولیو کیخلاف مہم چلائی جاتی ۔امریکی اخباروں میں بڑے سائز کے اخبارات شائع ہوتے کہ پولیو ویکسین اصل میں روسی سازش ہے جو امریکی نوجوانوں کو کمزور اور ہمیشہ کیلئے معذور بنانا چاہتے ہیں۔

میکارتھی ازم کے شروع کے دنوں میں اس نظریے میں بڑی طاقت تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ نظریہ اپنی موت آپ مرگیا ۔تاریخ ایسے نفرت انگیز نظریات سے بھری پڑی ہے ۔ایسے نفرت انگیز نظریات زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھے جا سکتے۔اس دنیا کی حقیقت یہی ہے کہ منفی سوچ سے مثبت نتائج کبھی برآمد نہیں ہو سکتے۔لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور مسائل کے حل کیلئے ایک ہونے کیلئے ایسے نظریات کبھی دیر پاقابل قبول نہیں ہوتے۔

ایسے نظریات زیادہ تر معاشرے کو تار تار کرکے رکھ دیتے ہیں۔میکارتھی ازم کا خاتمہ صرف دس سالوں کے اندر ہی ہو گیا کیونکہ جوزف میکارتھی اور ان کے ساتھیوں نے اب فوج کے اندر بھی ایسے لوگوں کی تلاش شروع کردی جن کی حب الوطنی پر ان کو شک ہوتا۔جس کے بعد امریکی فوج اور ایف بی آئی نے جوزف میکارتھی کا ساتھ چھوڑ دیا چند ماہ بعد ہی میکارتھی دو کوڑی کا ہو کر رہ گیا۔

میکارتھی کی اب سینیٹر شپ بھی ختم ہو گئی جس کے بعد وہ شراب اور نشے کا عادی ہو گیا۔شراب کے زیادہ استعمال سے اس کا جگر ناکارہ ہو گیا ،سینیٹر شپ ختم ہونے کے دو سال بعد ہی اس کی موت واقعہ ہو گئی۔جب امریکہ میں میکارتھی ازم اپنے عروج پر تھا انہی دنوں امریکہ کو برطانیہ سے ایک ٹپ ملی کہ اس کے کچھ ایٹمی سائنسدان روس کے جاسوس ہے۔اس ٹپ کے بعد امریکہ میں تھرتھلی مچ گئی۔

آخرکار چند دنوں بعد ایف بی آئی نے امریکہ کے مین ہیٹن پروجیکٹ کے ایک سیکیورٹی پر معمور سولجر کو گرفتار کرلیا ۔سولجر ڈیوڈ گرین گراس امریکہ کی انتہائی خفیہ ایٹمی پروگرام مین ہیٹن پر سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دے رہا تھا ۔اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک ڈرائینگ چوری کرکے روس کے حوالے کی ہے جلد ہی ڈیوڈ گرین وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے تیار ہو گیا ۔

ڈیوڈ نے ایف بی آئی کے اہلکاروں کو بتایا کہ اس نے یہ ڈرائیننگ اپنی بہن جولیس روزن برگ جو اس کی چھوٹی بہن تھی اس کے کہنے پر چورائی ہے۔جولیس کے شوہر ایتھن روزن برگ جو کسی وقت میں امریکی فوج میں انجینئر کے طور پر کام کرتا رہا تھا اب وہ ایک سیاستدان بن گیا تھا۔اب ایف بی آئی نے ان دونوں میاں بیوی کو گرفتار کرلیا ۔دونوں میاں بیوی نے روسی جاسوس ہونے سے مسلسل انکار کیا۔

آخر کار 5اپریل 1951کو امریکی عدالت نے ایتھن روزن اور اس کی بیوی جولیس کو سزائے موت سنادی۔یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوکہ ان دونوں کو سزا سنانے والا جج بھی میکارتھی ازم کا شکار بن چکا تھا۔جس کے دباؤ میں آکر اس جج نے دونوں میاں بیوی کو سزائے موت دی۔ان دونوں پاکستان میں مشہور شاعر فیض احمد فیض بھی راولپنڈی سازش کیس میں جیل میں تھے۔فیض احمد فیض کو جب جیل میں اطلاع ملی کہ روزن برگ اور جولیس کو سزائے موت دے دی گئی ہے تو وہ بھی بہت غمزدہ ہوئے کیونکہ فیض احمد فیض بھی کمیونلزم سے بہت متاثر تھے۔

انہی دنوں فیض احمد فیض نے لکھا
تیرے ہونٹوں کی پھولوں کی چاہت میں ہم داھارکی خشک ٹہنی پر وارے گئے ہم
تیرے ہاتھوں کی شمع کی حسرت میں ہم نیم تاریخ راہوں میں مارے گئے ہم
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی تیرے ہاتھوں کی چاندی دھمکتی رہی
جب گلی تیری راہوں میں شام ستم ہم چلے آئے جہاں تک لائے قدم
لب پے حرف غزل دل میں قندیل غم اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پے ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :