کورونا تیرے شکر گزار ہیں ہم

پیر 1 جون 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

کہنے کو تو کورونا اور لاک ڈاؤن نے ہر طرف تہلکہ مچا رکھا ہے۔ لیکن یہ کورونا جاتے جاتے ہم پر کافی احسانوں کا بوجھ چھوڑ کر جائے گا۔ جس کا دین ہم کبھی چاہ کر بھی دے نہیں پائیں گے۔ ایک طرف اگر دیکھا جائے تو جہاں کورونا نے سب کی ہستی بستی زندگی میں گویا کہ بوچھال برپا کر رکھا ہے۔ جب سے آیا ہے تب سے ہر ایک کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہیں اگر ہم دوسری طرف دیکھیں تو کورونا نے بچھڑوں کو بھی آپس میں ملایا ہے۔


پھر چاہے وہ ٹیکسٹ کی صورت میں حال چال پوچھ کر ہو کال کی صورت میں گپ شپ کر کے ہو یا پھر گھر کی دہلیز میں ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع پا کر ہو۔ جوں جوں سائنس نے ترقی کی توں توں رشتوں کی پختہ دیواروں میں دراڑیں آتی گئیں۔
ابھی پچھلے دنوں میں اپنے گھر کے ٹی وی لانچ میں بیٹھا خبریں سن رہا تھا۔

(جاری ہے)

ہمارے گاؤں کی ایک بوڑھی عورت جو اکثر ہمارے گھر آتی رہتی ہیں آئیں اور میرے پاس بیٹھ گئیں۔

چونکہ میں پنجاب سے تعلق رکھتا ہوں اسلئے وہ پنجابی میں گویا ہوئیں۔''وے پتر سلیم کتھے پہنچیا تیرا ایہ کرونا سارے کہندے نے بڑی خطرناک مرض اے کرونا پر میں تے کہندی آں اس تو چنگی شے کوئی نہیں''
''او کنج بے بے ایہ توں کیہ کہہ رہی ایں''
میں گویا ہوا
''وے ویکھ نا پترا جدوں دا میرا پتر جوان ہویا پہلی وار اس کرونا دی وجہ تو انج ہویا کہ اوہ میرے کولے اپنے پیو دادے دے گھر رہ رہیا نہیں تے تو جاندا تے ہیں جدوں دی اسدی نوکری لگی او لاہور ای رہندا''
'' ہاں بے بے گل تے توں ٹھیک کہہ رہی ایں''
''چل پتر چنگا میں چلدی آں ہانڈی روٹی دا وی کرنا اے جا کے''
اتنا کہہ کر وہ چل دیں۔

میں سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ کیا واقع ایسا ہوا ہے؟ کیا واقع میں رشتے ایک بار پھر ٹوٹ کر واپس آپس میں جڑے ہیں؟ چاروں طرف جونہی میں نے نظر دوڑائی مجھے اپنے سوال کا جواب ہاں میں مل گیا۔
بالکل ایسا ہی تھا اگر بات کریں کورونا سے پہلے کے دنوں کی۔ تو کیا تھا؟ کام کام اور بس کام۔ بچے صبح اٹھتے ہی ناشتہ کرتے تھے بیگ اٹھاتے تھے وین میں بیٹھ کر اسکول کی راہ پکڑتے تھے۔

بڑے اٹھتے ہی آفس کو نکل جاتے تھے۔ دیہاڑی دار بندہ صبح منہ اندھیرے دیہاڑی پر نکل جاتا تھا۔ سارا دن سڑکیں ویران و سنسان پڑی رہتی تھیں۔ شام کو سب واپس گھر کو لوٹتے آتے ہی تھکن کے مارے برا حال ہوتا تھوڑا آرام کیا،خبریں سنی اور سو گیا۔ اگلی صبح پھر وہی روٹین۔ گویا کہ ہم زندگی نہ جی رہے ہوں کوئی فلم چل رہی ہو۔ بس چلتے ہی رہنا ہے ایک اسکرپٹ ہمیں تھما دی گئی ہے بس یہی کرنا ہے۔

اس سے ادھر ادھر نہیں ہونا۔
اگر میں اپنی بات کروں تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے پڑھائی کے چکر میں ہاسٹلز میں ہی رہ رہا تھا۔ میری زندگی بس ہاسٹل سے یونورسٹی، یونورسٹی سے ہاسٹل اور دو یا تین ہفتے کے بعد کسی ایک ویک کے اینڈ پر ایک دن کیلئے گھر آ جاتا گھر والوں کو مل کر پھر واپس لوٹ جاتا۔ گویا کہ میرے پاس بس میری پڑھائی تھی یا میرے ساتھ بسنے والے لوگ تھے۔

گھر والے رشتہ دار،محلہ دار، چڈی فرینڈز تو مانوں کہ چھوٹ ہی گئے تھے۔ الحمدللہ اس کورونا کے کرموں کا صلہ ہے آہستہ آہستہ سب واپس میری طرف لوٹ رہا ہے۔
اگر میں بات کروں اپنے محلے کی تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر گھر سے بلند ہوتی آوازیں، بچوں کے قہقوں کی آوازیں گلی میں چلتے پھرتے بچے،بوڑھے اور بزرگ روح کو اک عجب ہی سرور بخشتے ہیں۔ میں اکثر خود سے یہ سوال کرتا ہوں نجانے اس کورونا سے پہلے یہ سب کہاں تھے؟ یہ کھلکھلاہٹیں یہ مسکراہٹیں کہاں چھپی ہوئی تھیں؟ گویا کہ کورونا نے سب کو جینا سکھا دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :