کورونا کے متعلق چند غلط فہمیاں

جمعہ 12 جون 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

کورونا نے جب سے ہماری زندگیوں میں اپنا قدم رکھا ہے۔ تب سے سر چڑھ کر ہی بول رہا ہے۔ چار سو بس موت ہی برسا رہا ہے۔ جہاں ایک طرف اب تلک اس وبائی مرض کی دوا دریافت نہیں ہو پائی،وہیں دوسری طرف ہماری کم عقلی نے اسے حکومت کی کمزوری نااہلی اور نجانے کیا کچھ سمجھ کر اسے ایک افواہ سمجھ کر افواہ بنا کر ایک اچھے خاصے مسئلے کو مذاق بنا کر دکھ دیا ہے۔

یہاں تک کہ کچھ لوگوں کے منہ سے بلکہ ذیادہ تر لوگوں کے منہ سے سننے کو ملا کہ کورونا جیسی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ یہ بس ڈرامہ بازی ہے اور کچھ نہیں۔ بندے اچھے خاصے ہاسپٹل جاتے ہیں وہاں وہ زہر کا انجیکشن لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیتے ہیں۔ یہاں چند ایک باتیں جو میں بتانا ضروری سمجھوں گا۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں۔

(جاری ہے)

کہ ابھی تک کورونا کا کوئی علاج دریافت نہیں پایا۔

بلکہ تمام تر ممالک کورونا کی ویکسین بنانے میں سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ جس کو بننے کے لیے مہینے بھی لگ سکتے ہیں شاید سالوں بھی لگ سکتے ہیں۔
ایسی صورت میں سینیئرز ڈاکٹرز نے مختلف میٹنگز ارینج کر کے اس بات پر اکتفا کیا،کہ جب تک کورونا کی دوائی یا ویکسین دریافت نہیں ہوتی تب تک ہمیں کچھ ایسی راہ اپنانا پڑے گی جس سے ہماری عوام خطرے سے باہر رہ سکے۔

کیونکہ ایسی موت برساتی وبا میں ہمارے ہیروز ہمیں موت سے اکیلا لڑتا تو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ شروع شروع میں سبھی نے حالات کو کنٹرول میں دیکھتے ہوئے اس بات پر اکتفا کیا کہ عوام کو ماسک پہننے،دستانے ڈالنے کی تجاویز دی جائیں،تاکہ احتیاطی تدابیر اپنا کر وہ اس مرض سے دور رہ سکیں لیکن جب اس سٹیپ سے بھی عوام کی حالت پر کچھ خاصہ فرق نہ آیا تب حکومتی بینچ نے اس بات پر اکتفا کیا کہ چند دن کا لاک داؤں لاگو کر لیتے ہیں۔

جیسا سننے میں آیا کہ یہ وائرس چلنے پھرنے میل ملاپ سے ایک دوجے میں ٹرانسفر ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی باہر نہیں نکلے گا تو امید ہے سب کنٹرول میں آ جائے گا۔ لیکن ہم ٹھہرے لاتوں کے بھوت ہمیں باتوں سے کہاں سمجھ آنے والی تھی۔ ہم نے ہٹ دھرمی پر اڑ کر مانوں کہ قسم اٹھا لی کہ حکومت چاہے جو مرضی کہے ہم نے نہیں ماننا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسز چند ایک سے سینکڑوں کی تعداد تک پہنچ گئے۔

حالات بے قابو ہوتے دیکھ کر حکومت نے لاک ڈاؤن میں سختی کر دی جو کہ اب تلک چلتی آ رہی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کیسز سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئے۔
جب حکومت نے دیکھا کہ اس بھولی اور نادان عوام نے خود کو موت کے منہ میں دھکیل تو ویسے لیا ہے۔ اب ہم انھیں ایسے ہی موت سے لڑتا تو نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور عوام کی صحت ٹھیک کرنے کی غرض سے ''پلازما ٹریٹمنٹ'' اور ایکٹیمرا جیسے اینجیکشنز کو انفیکٹڈ پرسنز میں انجیکٹ کرنے پر اکتفا ہوا۔

جیسا کہ ہم اگر کسی میڈیکل سٹور سے اگر کوئی دوا لینے جائیں اور وہ نہ ملے تو میڈیکل سٹور والا ہمیں بعض دفعہ اس دوا کے متبادل دوا دے دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی کچھ ہوا۔ جب حکومت اور ڈاکٹرز نے دیکھا کہ اصل کورونا ویکسین تو بننے میں بہت وقت پڑا ہے۔ تب تک کیا کیا جائے؟ تب تجاویز پیش کی گئیں کہ آیا کہ اس دوا کے متبادل جو کہ اس ٹریٹمنٹ سے ملتی جلتی ہو ٹرائی کر کے دیکھتے ہیں۔

شاید کچھ اثر کر جائے۔ اس زمرے میں شروع میں Hydroxychloroquine میڈیسن استعمال کی جانے لگی لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بتایا کہ یہ میڈیسن کورونا کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ یوں کہہ لیں کہ متبادل میڈیسن کے طور پر دی گئی۔ لیکن چونکہ ہو دوا ہو مرض کی دوا نہیں ہوتی بالکل اسی طرح بعد میں پتہ چلا کہ اس میڈیسن کے استعمال سے کورونا تو کم ہو رہا ہے پر دل کے مریض بڑھ رہے ہیں۔

یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ڈاکٹرز نے یہ میڈیسن دینا بند کردی۔ ابھی چند دن پہلے ایک نیوز ویب سائٹ پر بتایا گیا کہ حکومت نے ہزار مریضوں پر ایکٹیمرا (Actemra) انجیکشن کے ٹرائل کی اجازت دے دی۔ لیکن اگلے ہی دن اس نئی نیوز بتلائی گئی کہ حکومت نے اس انجیکشن کے ٹرائل پر پابندی عائد کر دی۔ کہنے کا مقصد یہ سب بس فرضی ٹریٹمنٹ تھا۔

جو کہ اس بیس پر شروع کیا گیا کہ شاید اس سے افاقہ ہو جائے۔ لیکن جب بعد میں دیکھا گیا کہ یہ جان بچانے کے بجائے الٹا جان لے رہا ہے تو فورا اسے بند کر دیا گیا۔ اب بظاہر ان patients کی موت انجیکشنز کے لگنے کی وجہ سے ہی ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا کہنا کہ ڈاکٹروں نے زہر والا انجیکشن لگایا تبھی ان کی موت واقع ہوئی یہ غلط ہے۔
دوسری بات یہ کہنا کہ کورونا ہے ہی نہیں۔

یہ تو سرا سر ہٹ دھرمی ہے۔ چلو کسی ایک ملک یا کسی ایک مخصوص علاقے میں ایسی صورتحال ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے،کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔ افواہ ہے لیکن اب جب پوری دنیا اس میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایسے میں ایسی سوچیں سوچنا یہ انسانیت کے منافی بات ہو گی۔ اس کورونا سے بچنے کا واحد حل احتیاطی تدابیر کا اختیار ہے۔ چہرے پر ماسک پہننا اپنا شیوا بنا لیں ذیادہ میل ملاپ سے گریز کریں۔ ایس و پیز پر عمل کریں حکومت  اور میڈیکل سٹاف کا اس جنگ کو لڑنے میں انکا ساتھ دیں۔ تا کہ ہم جلد از جلد اس سے سرخرو ہو کر باہر نکل پائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :