پکائے روٹیاں اور پالے بچے

پیر 29 اپریل 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

موجودہ سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں میل (Male)کی تعداد 10کروڑ 39لاکھ اور فی میل(Female) کی تعداد 10کروڑ6لاکھ سے زیادہ ہے یعنی مرد وں کی تعداد پاکستان کی آبادی کا 50.8فیصد ہیں اور خواتین پاکستان کی آبادی کا 49.2فیصد ہیں اعدادوشمار بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردو خواتین کے تناسب میں زیادہ فرق نہیں ہے ہم ایسے ملک میں نہیں رہتے جہاں خواتین کی کمی ہو اور ایسے ملک میں بھی نہیں رہتے جہاں مرد حضرات کی کمی ہو اور اگر بات کی جائے موسم کی تو ہمارے ملک پاکستان پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ ہمارے ملک میں چار موسم ہوتے ہیں ۔


 بات اگر ملک کی ترقی کی آجائے تو ملک کی ترقی میں دو عناصر سب سے اہم ہیں ایک ملک چلانے والا عنصر ہے اور دوسرا عنصر عوام کا ہے ان دو عناصر کو بعد میں مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

جیسے ملک چلانے والوں میں صدر ،وزیر اعظم ،چیئرمین ،ڈپٹی چیئرمین ،مختلف وزیر،پولیس ،فوج ،آرمی ،رینجرز ،سرکاری و نیم سرکاری ادارے وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور عوام میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں مختلف طرح کا لباس زیب تن کرتے ہیں اور مختلف رسومات کو اپنائے ہوتے ہیں ۔

ان میں سے کچھ افراد غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں کچھ افراد کا تعلق مڈل کلاس سے ہوتا ہے اور کچھ افراد امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر رہتا ہوا ملک کی ترقی میں اپنا کردار کر رہا ہوتا ہے ۔
لیکن جب بات کی جائے مرد وعورت کی تو آج کے جدید دور میں خواتین کا ملک کی ترقی میں بہت بڑا کردار ہے آج ہمیں ہر شعبے میں خواتین حصہ لیتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ پرانے زمانے میں خواتین کو پکائے روٹیاں اور پالے بچے کی حد تک محدود رکھا جاتا تھا ۔

یورپ کی مثبت معاشی صورتحال میں اگر ہم مردو خواتین کے کردار کی بات کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 51%خواتین اور 49%مر د اپنی صلاحیتیں ملک کی خاطر استعمال کرتے ہیں ۔یعنی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردارمردوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو آگے نہیں آنے دیا جاتا ۔
ہمارے ملک میں خواتین کسی سے کم نہیں ہیں لیکن کسی جگہ غربت ،کسی جگہ برادری سسٹم،کسی جگہ پڑھائی کو اچھا نہ سمجھنااور کسی جگہ وسائل کی کمی آڑے آجاتی ہے اور خواتین کو پڑھنے نہیں دیا جاتا اگر خواتین کو پڑھنے دیا بھی جاتا ہے تو35%خواتین کو پرائمری اور30%خواتین کو میٹرک تک تعلیم دلوانے کے بعد گھر بٹھا دیا جاتا ہے ۔

20%خواتین بیچلر تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں اور صرف15%خواتین ایسی ہیں جو ماسٹر تک یا پھر اس سے آگے تعلیم حاصل کر پاتی ہیں ۔
پکائے روٹیاں اور پالے بچے ہماری معاشرے میں ایک ایسی سوچ ہے جس نے ہمارے ملک کی ترقی روکنے میں کردار ادا کیا ہوا ہے یہ اُن لوگوں کی سوچ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ گھر کو چلانے اور ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے میں صرف ایک مرد ہی کام کر سکتا ہے یہیں سے غلط سوچ کی شروعات ہوتی ہے جب ہم معاشرے کے دو فرد مرد و عورت میں سے مرد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ مرد کو معاشرے میں جینے کی آزادی ہے مرد کو معاشرے میں اپنی بقاء قائم رکھنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی اجازت ہے لیکن خواتین کی بات کی جاتی ہے تویہ سوچ سامنے آجاتی ہے کہ خواتین کا کام تو روٹیاں پکانا اور بچے پالنا ہے اس سوچ کے پروان بھی وہی لوگ چڑھاتے ہیں جو خود تعلیم سے دور ہوتے ہیں اور تعلیم کو اچھا نہیں سمجھتے ۔


تعلیم انسان کو شعور سکھاتی ہے شعور آجانے انسان اپنے لئے اچھے اور بُرے کی تمیز کرنا سیکھ جاتا ہے اور جب انسان کے اندر اچھے اور بُرے کی تمیز آجاتی ہے تو وہ بُرائی سے سے بچ جاتا ہے اور اس دنیا وآخرت کامیاب انسان بھی وہی ہے جو بُرائی سے بچ جائے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پڑھی لکھی خواتین ہی پڑھے لکھے معاشرے کے قیام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔

جیسے جیسے ترقی ہوتی جارہی ہے خواتین میں بھی تعلیم حاصل کرنے کارجحان بڑھتا جارہا ہے۔
 ہمارے معاشرے میں اگر خواتین اپنے اور اپنے ملک کی خاطر کام کرنے کیلئے نکلتی بھی ہیں تو انہیں بہت سارے مسائل جن میں ہراساں کرنا،منفی سو چ کا سامنا کرنا،ڈی گریڈ کیا جانا،کمزور جان سمجھناشامل ہیں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مسائل بہت ہیں پریشانیاں بھی بہت ہیں لیکن ملک کی ترقی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا ۔

اس لئے معاشرے میں خواتین کی عزت کی جائے انکی حوصلہ افزائی کی جائے اور انکو مکمل تعلیم دلوائی جائے اور اسکے بعد اگر وہ ملک کی خاطر اپنی خدمات پیش کرنا چاہتی ہیں تو ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور انکے حقوق بھی صحیح معنوں میں دیئے جائیں تب ہی ہمارا ملک ترقی کرے گا اور ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔اللہ پاک ہمیں ملک منفی سوچ سے بچائے خصوصا ً خواتین کی تعلیم کے بارے میں مثبت سوچ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :