بھارت و افغانستان

منگل 10 اگست 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

موجودہ افغان صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ آتی  ہے کہ افغان سرزمین پر اقتدار پر قبضے کی جنگ جاری ہے جو کوئی بھی نیا موڑ اختیار کرسکتی ہے۔ایک طرف طالبان اپنی پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے ہیں اور علاقوں پر قبضہ کرتے جارہے ہیں تو دوسری طرف افغان حکومت اور فوج طالبان کے سامنے زیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک طرف طالبان وقتا فوقتا دنیا کو اپنا نقطہ نظر بذریعہ بیانات بتاتے  ہیں تو دوسری طرف افغان حکومت کیلئے اپنا آپ قائم رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ایک طرف طالبان اہم علاقوں اور سرحدوں پر قبضہ کرکے سرحدی گزر گاہوں کو بند کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف افغان فوج طالبان کے ہاتھوں شکست در شکست سے دوچار ہے۔

(جاری ہے)

اپنے ہوش و حواس کھوجانے پر افغان فوجی بمعہ اپنے آفیسر  پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور بعد میں شکریہ، مہربانی کرکے دوبارہ اپنے خطے میں داخل ہوتے ہیں۔


افغانستان کی یہ صورتحال نہ صرف پاکستان کیلئے اپنی خارجہ مہاذ کی سمت کے تعین کیلئے وضاحت طلب ہے بلکہ پوری دنیا خاص کر اتحادی ممالک کیلئے ایک چیلنج بنتی جارہی ہے۔ امریکی کا دو دہائیوں پر محیط قیام جدید ٹیکنالوجی اور جنگ حکمت عملی پر ایک طمانچہ ہے۔اقوام عالم کے ٹاپ کے ممالک طالبان کی پیش قدمی، علاقائی جنگ اور ختم ہوتی افغان حکومت پر پریشان  ہیں اور نالاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا کی لیڈرشپ بغض طالبان میں نپے تلے بیانات سے کام چلا رہے ہیں اور طالبان کے افغان خطے میں کنٹرول کو قابل قبول تصور نہیں کرتے۔ یوں کہنا ٹھیک ہوگا کہ یہ سب ان کیلئے ہضم کرنا مشکل ہے۔پاک افغان سرحد میں جسےعرف عام میں ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں اس پر افغان فوج کی طرف سے نہ صرف جھڑپیں ہوتی ہیں بلکہ مالی و جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔افغان فوج بھارتی فوج کی طرح یا تو بوکھلاہٹ کا شکار ہے  یاپاکستان دشمنی میں بھارت اور امریکہ کے زیر اثر کاروائیاں کرکے اپنے ان آقاؤں سےاپنا معاوضہ وصول کرتی ہے۔

بھارتی فوج بھی رات گئے پاکستان پر حملہ کرکے درخت گرادیتی ہے یا کوے ماردیتی ہے۔اسی طرح افغان فوج سرحدی کشیدگی کرتی ہے اور ساتھ ہی پاکستان میں پناہ بھی لے لیتی ہے۔افغانستا ن کا یہ دوہرا معیار بھارتی طرز کا ہے۔
سرحدی تنازعات اور جھڑپوں سے ہٹ کر عالمی سطح پر بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان کو تنہا ہ کرنے اور ایک بند گلی میں دھکیلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

حالیہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی غیر موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اپنے اس کھیل میں پاکستان کے خلاف آخری داؤ پیچ لگا رہا ہے۔ اس شکست خوردہ کھیل میں پاکستان کا بیانیہ آگے بڑھ رہا ہے اور ہندوستان کو پے در پے شکست کا سامنا ہے۔لاہور میں حافظ سعید کے گھر کے قریب کار بم  دھماکہ کرواکر پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں کروانا ہو یا پاکستان کے خلاف جھوٹ پر مبنی بیانیے کی ترویج کرنی ہو، اقوام متحدہ میں پاکستان کو سائیڈ لائن کرنا ہو یا کشمیر پریمئر لیگ میں بین الاقوامی کرکٹ پلیئرز کوبلیک میل کرکے ان کو اس لیگ میں حصہ لینے سے روکنا ہو، غرض بھارت یہ چھوٹی حرکات کرکےاپنی اوقات دکھاتا ہے۔

افغان حکمران پاکستان دشمنی میں نہایت نازیبا الفاظ، غلیظ لہجہ اورگھٹیا سوچ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ ماضی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ہی وہ ملک تھا جس کی قربانیوں کی وجہ سے یہ روس سے اپنی آزادی حاصل کرسکے۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس کی وجہ سے افغانستا ن میں جاری ہولناک جنگ اپنے اختتا م کو پہنچی اور طالبان  ڈائیلاگ ٹیبل پر بیٹھے ۔پاکستان ہی وہ ملک ہے جو لاکھوں افغان باشندوں کو بطور پناہ گزین قبول کرے ، ان کو رہائشیں دے، بر سر روزگار کرے، ان کو بلا روک ٹوک پورے ملک جہاں چاہے بسائے اور دوسری طرف افغان فوج اور حکمران پاکستان کی تمام تر کوششوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرائے کے قاتلوں کی طرح جب چاہے ڈیورنڈ لائن پر پر تشدد کاروائیاں کرے۔


افغانستا ن وہ خطہ ہے جو پہلے دن سے پاکستان کے خلاف ہر فورم پر خلاف کھڑ ا نظر آتاہے۔ ماضی میں اور آج بھی کئی آوازیں سننے کو ملتی ہیں جو پاکستان کے مغربی حصوں کو افغانستا ن کی سرزمین مانتے ہیں اور ڈیورنڈ لائن جیسے تاریخی معاہدے کو بھی رد کردیتے ہیں۔ایسا یہ افغان عناصر صرف بھارت کی شہ پر کرتے ہیں کیونکہ بھارت اپنی  پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے  کہ ہمسایوں سے دشمنی اور دشمن کے ہمسائے سے دوستی۔

پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے وجود کو ہر طرح مٹانے میں ماضی کے افغان اشرافیہ بھارتی پشت پناہی میں پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہےہیں۔اس سلسلے میں ہمیں پشتونستان کا افغانی خواب  نہیں بھولنا چاہیئے جو کبھی بھی سچ ثابت نہ ہوسکا۔ افغانی گریٹر افغانستا ن کے خواب بھی دیکھتے آئیں ہیں ۔پاکستان کی طرح افغانستا ن میں بھی کثیر النسل باشندے قبائل کی شکل میں آباد ہیں جو اپنا ایک الگ تشخص اور  تاریخ رکھتے ہیں۔

ان سب میں ہزارہ، ازبک، بلوچ ،تاجک ، بروہی،قزلباش ،کرغیزاور پشتون وغیرہ شامل ہیں۔ان سب قبائل میں پشتون بطور اقلیت ہی تصور کیے جاتے ہیں۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے افغانستان کا ایک پر امن، سازگار اور دیر پا حل نہایت ضروری ہوگیا ہے۔کئی دہائیوں پر محیط افغان جنگ اب دیمک بن چکی ہے جو افغانستا ن کو اندر سے کھائے جاری ہے۔اس سلسلے میں افغانستان میں سب سے پہلے ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں ہو جس سے افغانستان میں جاری اقتدار کی بندر بانٹ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔

طرز حکومت جیسی بھی ہو لیکن اس میں افغان باشندوں کی ترجمانی لازمی ہو۔افغان حکمران صرف افغانستان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو دیرپا حل کیلئے تشکیل دیں۔ افغانستان کو چاہیئے کہ وہ اپنے ہمسایوں سے مثالی تعلقات قائم کرے۔ افغان قیادت اقوام عالم میں بیساکھیوں کے بغیر کھڑا ہونا سیکھے۔پراکسی وار نے افغان حکمران اور اداروں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔پیچھے رہ گیا بھارت تو وہ اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے۔ بھارت کو پاکستان کی جگ ہنسائی میں کچھ نہیں ملا اور نہ ہی افغانستان میں اس کا مشن کامیاب ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :