امریکہ یا چین

ہفتہ 3 جولائی 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

حالیہ دنوں میں پاک افغان سرحد پر ایک جھڑپ کے نتیجے میں پاک آرمی کے دو سپوت شہید ہوگئے۔ایسی جھڑپوں میں پاک آرمی کی جانب سے منہ توڑ جوابی کاروائی کی جاتی ہے ۔ عام انداز میں دیکھا جائے تو یہ ایک کاروائی ہے جو سرحدی کشیدگی میں اکثر ہوجاتی ہے اوردونوں اطراف کئی جانوں کا ضیاع کا باعث بھی بن جاتی ہے۔لیکن  اموات کی تعداد کشیدگی کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں۔

یہ چھڑپ اس وقت ہوئی ہے جب پاکستانی حکومت نے پوری دنیاخاص طور پر امریکہ اور اسکے تمام اتحادیوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ اب پاکستان مزید پرائی جنگ کا شراکت دار نہیں بن سکتا۔پاکستان کی اپنی استطاعت سے بڑھ کر امریکی امداد بجائے  بہتری کے الٹا  پاکستان کے گلے پڑ رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی اس پراکسی جنگ میں بہت کچھ کھو چکا ہےجس کے اثرات ہماری معیشت اور سفارت کاری پر گہری چھاپ چھوڑ چکے ہیں۔

(جاری ہے)

حکومتی  پیغام میں اب کوئی ابہام کی گنجائش نہیں رہی۔ یہ پیغام پاکستان کی واضح اور درست سمت کو بڑھتی ہوئی خارجہ پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔
ملک خداد اب نظریہ ضرورت سے نکل کر اپنی خارجہ پالیسیوں کی  سمت کا تعین خود کررہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک خاص قسم کے انحصار  سے آزاد ہوتی دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ پراسس ابھی مکمل نہیں ہوا۔

پچھلی دہائیوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تعین کرنے کے پیرامیٹرز ملک سے باہر بیٹھی قوتیں طے کرتی تھی اور پاکستان اس پر صرف عمل کرنے کا پابند ہوتا تھا۔امریکی بیانات اور کانگریس میں پاس ہوتے بل پاکستان کی معاشی اور سفارتی پالیسیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے تھے۔اس چیز کو ہمارے سیاست دان نظریہ ضرورت کا نام دے کر اپنی جان چھڑا لیا کرتے تھے۔

عوامی سطح پر یہ فقرہ زبان زد عام تھا کے یہ جو بھی ہورہا ہے امریکہ کروا رہا ہے۔لیکن اب ایسا نہیں۔
پاکستان کی طرف سے پاک افغان بارڈر جسے عرف عام میں ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہےپر باڑ لگانے کا کام جاری ہےجو مکمل ہونے کے قریب ہے۔ اس باڑ کا مقصد غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا، سرحد ی خلاف ورزی اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنا ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان کی طرف سے اس کام کا واحد مقصد امن و امان کی صورت حال کو کنڑول کرنا ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان دوریاں اور بد گمانیاں نہ پیدا ہو۔ہمارے ملک کی شناخت کو پراکسی جنگوں نے ایسا بے رنگ اور منفی کیا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلناہی محال ہوگیاہے۔2018 سے پی ٹی آئی کی حکومت معاشی محاذ پر مصروف عمل ہے۔افغان طالبان کی حمایت پاکستان کا معتدل اور دور اندیش بیانیہ ہے جو افغان خطے کا مستقبل ہے۔


دنیامیں تمام ہمسایہ ممالک کے آپسی تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی گرمی سردی رہتی ہے۔  پاکستان نے ہمیشہ افغانستا ن کو اپنی مضبوط کمر ہی سمجھا ہے۔لیکن اس کا مثبت اثر نہیں ہوا۔  افغانستان میں بنیادی طور پر دو طاقتور دھڑے ہیں جو خود کو حکومت کے قابل ترین اور اہل ترین تصور کرتے ہیں: ایک افغان طالبان اور دوسرا شمالی اتحاد۔

شمالی اتحادافغان جنگجوؤں کا وہ گروہ ہے جو غیر ملکی امداد اور اسلحہ پر پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس گروہ نے افغان خطے کو امن سے جنگ اورجنگ سے  خطرناک ترین حالات میں دھکیل دیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان ایک ایسی دلدل بن گیا ہے جہاں سے لاکھوں افغان باشندے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔اسی گروہ نے ملک پاکستان کے مثبت امیج کو  بہت زیادہ متاثر کیا۔


وزیر اعظم عمران خان کا چینی ادارے کو انٹرویو پاکستان کی مثبت اور مضبوط خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔ہر امن کی کاوش میں امریکہ کا ساتھ دینا چاہیے لیکن ہمسایوں خاص کر چین سے تعلقات میں کمی نہیں ہوگی۔پاک چین دوستی اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے ہی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیلئے باعث تشویش ہیں۔امریکی دباؤ اب اپنا اثر کھو چکا ہے۔جیساکہ ماضی میں پاکستان پہلے ایک معتبراسلامی ملک کے دباؤ میں نہیں آیا اور اسرائیل جیسی اپارتھائیڈ ریاست کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کرچکا  ۔

اب  امریکی دباؤمیں آکر اپنے فضائی اڈے دےکر اپنی سرزمین ایک بار پھر اسی پیچیدہ جنگ میں نہیں  دھکیل سکتا اور نہ ہی  ہچکولے کھاتی ہوئی معیشت کو ڈبو سکتا ہے۔اگر فضائی اڈے حوالے امریکہ کیے تو پاکستان گرے لسٹ سے سیدھا بلیک لسٹ ہوجائےگا۔ہندوستانی بیانیے کو سر عام سچ مان لیا جائے گا کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتا ہے۔پاکستان دہشت گردوں کی ایک نرسری ہے۔

ایک جرمن یوٹیوب چینل نے پاکستان کو پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جس کو باقاعدہ پاکستان کے خلاف ایک منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے۔
پاکستان کو اب طے کرنا ہے کہ اس نے کس طرف بڑھنا ہے۔کیاپاکستان   امریکہ کا ساتھ دے کر ایک اور لمبی اور نقصان دہ جنگ میں دھنس جائے  جس سے اس کے مخالفین کو براہ راست فائدہ ہویا چین سے جڑ کر اپنی معاشی ترقی میں برق رفتاری پیدا کرلے؟امریکہ سے امداد کے عوض اپنی سرزمین کو دہشت گردوں اور پراکسی جنگوں کا میدان بنا دے یا چین سے دفاع اور ٹیکنالوجی میں تعاون کرکے اپنا دفاع مزید ناقابل تسخیر بنالے؟سات سمند پار بیٹھے امریکہ کی ڈکٹیشن لے اور اپنےہی ہمسایوں سے الجھ پڑے یا چین سے تعلقات میں مزید وسعتیں پیدا کرکے اپنے ہمسایوں کے لئے امن اور ترقی کی ایک مثال بن جائے؟فیصلہ بہرحال موجودہ پالیسی سازوں کے ہاتھ میں ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :