تیسرا فریق

اتوار 29 اگست 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

 افغانستان کے دارلحکومت کابل کے ائیر پورٹ پر  دو بم دھماکے ہوئے۔ اس تخریب کاری کے نتیجے میں کئی افغان شہریوں اور امریکی فوجیوں کی  زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔دھماکے سے قبل بھی  مذکورہ ائیر پورٹ کی مکمل سیکورٹی امریکی ، برطانوری اور دوسرے اتحادی ممالک کی  افواج کے قابو میں تھی۔افغان طالبان جنہوں نے افغانستان کی نئی نئی کمان ہاتھ میں لی ہے ان کے دور میں یہ دہشت گردی کی پہلی کاروائی ہوئی ہے۔

طالبان کی طر ف سے ان دھماکو ں کی مزمت کی گئی  اور ساتھ ہی کہا گیا کہ جائے وقوعہ کی سکیورٹی ان کے کنٹرول میں نہیں ۔ امریکہ کی جانب سے مزمتی بیانات سامنے آئے  اور امریکی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار بھی۔امریکی صدر جوبائیڈن نے دہشت گردوں کی اس کاروائی کو نہ بھولنے کا عندیہ بھی دیا۔

(جاری ہے)

بائیڈن انتظامیہ کی آئندہ پالیسی سٹیٹمنٹ افغان صورتحال سے واضح ہوتے دیر نہیں لگے گی۔


ان دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش (دولت اسلامیہ برائے عراق اور شام)نے قبول کرلی ہے۔ اس سے ظاہری طور پر یہ کنفیوژن دور ہوگئی ہے کہ یہ کاروائی امریکہ اور طالبان کی طرف سے نہیں ہوئی بلکہ ایک تیسرا فریق ہے۔داعش ایک شدت پسند تنظیم ہے جو اپنی کاروائیاں جہادی طرز پر کرتی ہے۔ اس کا وجود منظر عام پر 2014 میں اس وقت آیا  جب اس  کی جارحانہ کاروائیوں نے عراقی فوج کو اہم شہروں سے نکال باہر کیا۔

اس جہادی گروہ نے صحافیوں ،نامور شہریوں اور دوسرے اہم لوگوں کو سفاکی سے قتل کرکے انکی وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دیں جس سے ان کی ہیبت اور ڈر لوگوں میں بیٹھنے لگا۔عالمی طور پر یہ آرگنائزیشن کالعدم ہے اور دہشت گرد تنظیمیوں کی فہرست  میں شامل ہے۔داعش بنیادی طور پر سلفی نظریات کی حامی ہے اور یہ عراق اور شام میں اپنے مخالف عقیدہ و نظریات رکھنے والی جہادی تنظیموں پر بھی کھل کے کاروائیاں کر تی رہی ہے۔


ایرانی انقلابی گارڈز کا سب سے مشہورکردار جنرل قاسم سلیمانی تھے جو پچھلے سال ایک امریکی ڈرون حملے میں اپنے ایک اہم ساتھی کے ساتھ مارے گئے ۔ ان کی میت کی پہچان انکی ایک سرخ پتھر والی انگوٹھی سے ہوئی۔ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاز لبنان، عراق، یمن، شام اور لیبیا میں ایکٹو ہیں اور کئی عرصے سے  خانہ جنگی میں ڈوبے اسلامی ممالک میں وسیع ایرانی مفادات کے حصول کیلئے مصروف عمل ہیں۔

ایران جو پراکسی جنگوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا نے چند اسلامی  ممالک میں حکومتیں گرانے اورا نکی جگہ  اپنے من پسند اور ہم مسلک ارکان لگوانے کیلئے بھی اسیسن جیسے اقدام بھی کیے جومسلم امہ کیلئے شرم کی بات ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری  امت مسلمہ کی تنہا لیڈر شپ کیلئے  پراکسی جنگ 80 کی دہائی سے تا حال جاری ہے ۔  عالمی ماہرین اور تجزیہ کار اس کو سرد جنگ کا نام دیتے ہیں۔

جیسے روس اور امریکہ مختلف بر اعظم کے ممالک میں اپنے مفادات کوعمل جامہ پہنانے کی خاطر سر د جنگ لڑتے رہے ہیں بلکل اسی طرح اب ایران اور سعودی عرب یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔سرد جنگ کی لپیٹ میں کئی اسلامی  خطے آئے اور نقصان صرف مسلمانوں کا ہی ہوا۔ کار بم دھماکے ہوں، خود کش بم دھماکے یا اس جیسے دیگر دھماکے ان جیسی کاروائیوں میں مرتے صرف مسلمان ہی ہیں۔

ایران سعودی تنازعہ کی لپیٹ میں مڈل ایسٹ کے علاوہ افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ دونوں ممالک خود براہ راست جنگ نہیں لڑتے اور اسلامی برادر ممالک میں اپنے ہم عقیدہ لوگوں کو اپنی انا اور برتری کیلئے بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔یہ آپسی جنگ اب ایک ایسی داستان بن چکی ہے جس پر کئی فلمیں بن سکتی ہیں بلکہ یہ کہنا آسان ہوگا کہ ایک سیریز بنائی جاسکتی ہے۔

ایران اور سعودی عرب ہی کی وجہ سے متعدد اسلامی ممالک میں فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے۔ جس سے تنظیموں کا قیام عمل میں آتا ہے۔پھر یہی تنظییمں عسکری یونٹس میں ڈھل جاتی ہیں اور بات لڑائی اور پھر خانہ جنگی تک بہنچ جاتی ہے ۔ اس خونی کھیل میں جو مار رہا ہے وہ اور جو مر رہا ہے دونوں ہی جنتی ہونے کے دعویدار ہیں۔
پاکستان میں بھی ایرانی حمایت یافتہ ملک دشمن عناصر متعدد بار گرفتا ہوچکے ہیں جو عراق اور شام میں ایرانی سپورٹ سے اپنے تئیں جہاد کر رہے ہیں۔

یہ عناصر ایرانی انقلابی گارڈز کی ملازمت کرتے تھے۔ایران نے پراکسی جنگ کا بازار لگایا ہوا ہے جس میں کئی اسلامی ممالک کی نوجوان نسل کو شہادت اور جنت کے نام پر اس آگ میں پھینکا جاتا ہے۔ ایران میں سب سے زیادہ  فیورٹ جنرل قاسم سلیمانی بھی پاکستانی اداروں کے خلاف کھلے عام دھمکی آمیز بیانات دیتے رہے جس سے  ایران پاکستان تعلقات میں تھوڑے عرصے کیلئے تناؤ رہا۔

جب پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تھا تو ایران بھی دہشت گردوں کیلئے ایک محفوظ ٹھکانہ بنتا رہا جہاں سے دہشت گرد بھارت اور پھر ایران آتے اور جاتے رہے ہیں۔کلبھوشن اسکی زندہ مثال ہے۔
 افغانستان میں اگر ایک گروہ اقتدار تک جیسے تیسے پہنچ گیا ہے تو دوسرا گروہ پنج شیر میں افراتفری پھیلاتا ہے اور اب داعش نے افغان صورتحال کو امن سے جنگ کی طرف موڑنے کی پہلی کوشش کی ہے۔

یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اس کھیل میں فائدہ کسی فریق کا ہو تا ہے۔فائدہ صرف اسی قوت کا ہوتا ہے جو ان گروہوں کی مالی و عسکری ضرورت پوری کرتے ہیں۔جن کے اس جنگ میں ہتھیار بکتے ہیں اور بھاری تعداد میں جنگی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔فائدہ ان  عناصر  کا ہوتا ہے جو اسلام کی تشریح اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کرتے ہیں اور جو مسلمانوں کو یکجانہیں ہوتے دیتے۔


ایران اور سعودی عرب کے علاوہ اب تیسرا فریق اس جنگ میں کود پڑا ہے۔ جی ہاں!ترکی بھی اب کھل کر اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ترکی  نے یمن میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنا ہو یا ترکی میں سعودی سفارت خانے میں خفیہ ریکارڈنگ کرنی ہو ترکی نے یہ کام بڑی صفائی اور مہارت سے کیا ہے۔ترک صدر رجب طیب اردگان اتحاد امت کا نعرہ اپنی تقریروں کی ذریعے مسلمانوں اور عالمی برادری تک پہنچا رہے ہیں۔ترکی کی خلافت عثمانیہ کسی طور پر بھلائی نہیں جاسکتی ۔سعودی پالیسیوں پر ترکی کی جانب سے کھلے عام تنقید ہوتی ہے۔ آپسی جنگ کی یہ ایک تکون ہے جو مستقبل میں پاکستان کو مزید انگیج کرسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :