پاکستان ریڈ لسٹ

پیر 6 ستمبر 2021

Saqib Raja

ثاقب راجہ

برطانیہ سفر کرنیوالے پاکستانیوں کے لئے اس بار بھی کوئی  اچھی خبر نہ تھی اور ایک بار پھر نا امیدی پیدا ہوئی جب برطانیہ نے ہر تین ہفتے بعد کئے جانیوالے ریویو میں پاکستان کو بدستور ریڈ لسٹ میں رکھا مطلب پاکستان سے آنیوالے مسافروں کو دس دن ہوٹل میں رہنا ہوگا جسکا خرچہ بھی اب بڑھا دیا گیا ہے ابتداء میں یہ 1750 پاونڈ تھا جو کہ اب 2300 پاونڈ ہوچکا ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے آپ سے بات سے اندازہ لگا لیں کہ جب تارکین وطن پاکستان جاتے ہیں تو ٹکٹ سمیت انکا خرچہ پاکستان میں رہنے خرچہ وغیرہ ملا کر دو سے تین ہزار میں بہترین چھٹیاں گزار کر واپس آسکتے ہیں لیکن اب اگر کسی کو جانا ہو تو اسے کم سے کم پانچ ہزار پاونڈ درکار ہونگے اور یقین کیجئے برطانیہ میں کاروبار اور نوکریوں کے حالات اب اتنے اچھے نہیں کہ کوئی سالانہ بھی پانچ ہزار پاونڈ بچا کر ہوٹل میں دس دن رہنے اور پاکستان جانے کا تصور بھی کرے گا لہذا پاکستان جانا تو درکنار اب جو لوگ پاکستان پہلے جا چکے تھے اب تک واپسی کے لئے ریڈ لسٹ سے نکلنے کا انتظار کررہے ہیں۔

(جاری ہے)


پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ بظاہر بہت غیر منصفانہ لگتا ہے لیکن اس فارمولے کو سمجھنا بہت ضروری ہے پہلے نمبر برطانیہ نے ایک فارمولہ سیٹ کردیا ہے کہ جس ملک میں اگیارہ فیصد سے زائد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اسے ریڈ لسٹ سے نکال کر ییلو لسٹ مطلب جو ییلو لسٹ ممالک سے آئے گا اسے ہوٹل کی بجائے گھر میں دس دن قرنطینہ کرنا ہوگا سو اس طرح کم سے کم اسکا 2300 پاونڈ تو بچ گیا اب جو ممالک اپنے آبادی کے پچیس فیصد کو کرونا ویکسین لگا چکے ہیں انکو گرین لسٹ مطلب انہیں نا تو گھر میں قرنطینہ کرنا ہوگا نہ ہی ہوٹل اور اب تک زیادہ تر یورپ کے چند ممالک اس گرین لسٹ میں ہیں جبکہ انڈیا جس نے ڈیلٹا ویریئنٹ متعارف کروایا ریڈ لسٹ کی بجائے ییلو لسٹ میں ڈالا گیا ہے اور پاکستان اس بات پر بہت ناراض نظر آیا بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ ڈیلٹا کرونا کے باعث دنیا بھر کے مختلف ممالک کو ریڈ لسٹ میں ڈالا گیا اور خود متعارف کروانے والا ملک انڈیا ییلو لسٹ میں ہے لیکن برطانیہ کو بار بار یہ کہنے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا ۔


برطانیہ ہر تین ہفتے بعد اس لسٹ کو اپ ڈیٹ کرتا ہے اور تمام ممالک کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے پاکستان کو اس بات بہت امید تھی کہ پاکستان کا ڈیٹا تسلی بخش ہے اور پاکستان اس ریڈ لسٹ سے نکل جائے گا لیکن ہوا پھر وہی کہ پاکستان کو نہ نکالا جا سکا اور جب اس پر خود برطانیہ میں پاکستانی نژاد اراکین اسمبلی نے اپنے وزرا پر سوال اٹھایا تو انہیں جواب ملا کہ ہم پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی دستاویزات پر یقین نہیں کر رہے کیونکہ پاکستان میں کرونا مریضوں کی ٹیسٹنگ اور نئے مثبت کیسز کی شرح کا تناسب آپس میں میچ نہیں کرتا اور نہ ہی ویکسین لگانے کی شرح تسلی بخش ہے اسکو اگر آسان الفاظ میں سمجھایا جائے تو وہ برطانیہ یہ کہ رہا ہے کہ تمام ممالک میں اگر روزانہ پچاس ہزار افراد کا کرونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو پاکستان میں صرف دس ہزار اور ظاہر ہے جب صرف دس ہزار کا ٹیسٹ کیا جائے گا تو مثبت نتیجہ آنے کی شرح بھی کم ہوگی لہذا برطانیہ نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔


وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے اپنے طور پر برطانوی حکام سے رابطہ کرکے اس پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن اب تک کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ترقی بھی بدستور ریڈ لسٹ پر رہا اگر ترقی ریڈ لسٹ سے نکل جاتا تو وہ پاکستانی جو اس وقت پاکستان میں پھنسے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ پاکستان اس لسٹ نکلے تو واپس آئیں انکے پاس متبادل راستہ ترقی کے ذریعے ہوتا تھا لیکن اب ترقی خود ریڈ لسٹ کی زد میں ہے ،
اب دو ہفتے بعد دوبارہ یہ لسٹ اپ ڈیٹ کی جائے گی اور پاکستان ایک بار پھر اپنا ڈیٹا فراہم کرے گا دیکھتے ہیں اس بار نتیجہ کیا نکلے گا لیکن یہ ذہن میں رکھئے کہ پاکستان کے ڈیٹا میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے بلکہ کیسز کی شرح بدستور بڑھ رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :