برطانیہ کی فلائیٹ واپس لوٹا دی

پیر 13 ستمبر 2021

Saqib Raja

ثاقب راجہ

لندن سے پاکستان کی پرواز بھرنے والے چارٹرڈ طیارے کو اس وقت واپس برطانیہ کی طرف موڑ دیا گیا جب وہ کچھ ہی منٹ کی پرواز بھر کر ہوا میں تھا پاکستانی حکام کی طرف سے یوکے کو کہا گیا کہ بعض وجوہات کی بنا پر وہ اس طیارے کو اسلام آباد لینڈنگ کی اجازت نہیں دے سکتے آپ کو یہ جان کر اور بھی حیرت ہوگی کہ طیارے میں عام مسافر نہیں بلکہ وہ لوگ سوار تھے جنکو برطانوی حکومت نے ڈی پورٹ کردیا تھا مطلب وہ افراد جو یا تو ویزا ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر یا پھر کسی جرم میں ملوث ہونے کی بنیاد پر ویزا منسوخ ہونے کے باعث بے دخل کئے جا رہے تھے اور ان افراد کے لئے برطانوی حکومت نارمل فلائیٹ نہیں بلکہ نجی کمپنی کا طیارہ چارٹرڈ مطلب کرائے پر حاصل کرتا ہے اور اس میں صرف انہیں افراد کو بھیجا جاتا ہے اپ کو یہ جان کر اور بھی حیرت ہوگی کہ گذشتہ دو سال کے دوران یہ تیسری فلائیٹ تھی جسکو پاکستان حکومت نے لینڈنگ کی اجازت نہیں دی ۔

(جاری ہے)


آپ کے لئے اس کو زرا اسان الفاظ میں کہوں تو پاکستان حکومت نے ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ہم ان بیچارے افراد کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کرنا چاہتے جو کسی نا کسی طرح بیرون ممالک رہ کر اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں لہذا جب ہم انکو واپسی کی اجازت نہیں دیتے تو برطانیہ ہو یا امریکہ انکو ایسے افراد کو شہریت دینی ہی پڑتی ہے لہذا یہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا جا رہا ہے لیکن اس بار معاملہ کچھ اور ہی طرف نکل گیا ۔


ہوا یوں کہ جیسے ہی پاکستان نے فلائیٹ کو لینڈنگ کی اجازت سے انکار کیا تو انگلش میڈیا نے خبر چلا دی کہ چونکہ برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ پر رکھا ہے تو پاکستان نے یہ شرط عائد کی ہے کہ پہلے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالا جائے تو ہم فلائیٹ کو اجازت دیں گے بس یہ خبر شائع ہوتے ہی ہلچل سے مچ گئی اور پاکستان حکومت سمیت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان کو بھی تردید جاری کرنا پڑ گئی کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ فلائیٹ کو ریڈ لسٹ کی بنیاد پر اجازت نہ ملنا مکمل غلط انفارمیشن ہے ۔

بحرحال انگلش میڈیا یہ ماننے کو تیار نہ تھا کیونکہ انکو لینڈگ کی اجازت نہ دینے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی تھی ۔
اب ایک طرف یہ بحث چھڑ گئی کہ آخر پاکستان چاہتا کیا ہے یہ تیسری فلائیٹ ہے جسکو اجازت نہ دی گئی برطانوی وزارت داخلہ خاصی غصے میں نظر آئی انہوں نے ان تین فلائیٹوں پر آنیوالے خرچ  اور وزارت کے نقصان کی تفصیل جاری کردی جسکے مطابق ان تین فلائیٹوں کے لئے برطانوی حکومت نے پانچ لاکھ اور چھیاسٹھ ہزار پاونڈ طیارے کی کمپنی کو دیئے جبکہ ان میں سوار افراد کو واپس برطانیہ میں رکھنے پر سو پاونڈ ہر روز فی کس خرچ ہو رہا ہے کیونکہ ان افراد کی رہائش کھانا پینا اور شاپنگ تک ہوم آفس کے ذمہ ہوتی ہے ان افرد کو کام کرنے یا فری گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی لہذا انکا تمام خرچ برطانوی حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے ۔


برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے کچھ ماہ پہلے پارلیمنٹ میں اپنی ایک تقریر کے دوران تقریبا دھمکی آمیز لحجے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو ملک اپنے ایسے افراد جنکو برطانیہ سے بے دخل کیا جاتا ہے واپس نہیں لیں گے تو ہم انکے ساتھ تعلقات منقطع کردیں گے اور پھر ان ممالک کو ویزٹ ویزے بھی جاری نہیں ہونگے اور یہ کوئی معمولی دھمکی نہیں تھی اگر دیکھا جائے تو تقریبا اس دھمکی سے کسی بھی ملک کے ساتھ سنگین نتائج بھی نکل سکتے ہیں ۔


ان تمام دھمکیوں اور بیانات کے باوجود پاکستان نے یہ قدم تو اٹھا لیا لیکن اس بات برطانیہ خاموش نہیں بیٹھے گا جیسے کہ ابھی تو انگلش میڈیا کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ اس معاملے کو اچھالا جائے اور جو ایشو ایک بار میڈیا کی زینت بن جائے اس پر پارلیمنٹ میں ضرور بحث ہوتی ہے جہاں دل کھول کر متعلقہ وزارت اپنی بھڑاس نکال لیتی ہے ابھی پاکستان سے ریڈ لسٹ کی تلوار ہٹی نہیں اور یہ ایشو کھڑا کرلیا ہے دیکھتے ہیں اب یہ معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :