ویزا ختم یا ناراضگی

ہفتہ 7 اگست 2021

Saqib Raja

ثاقب راجہ

نواز شریف کے برطانیہ میں ویزے کی معیاد ختم ہوئی مطلب اب نہیں یوکے میں مزید قیام کے لئے یا یو اسائلم کا سہارا لینا ہوگا یہ پھر برطانیہ کے ہوم آفس کے فیصلے جس میں انہوں نے نواز شریف کے ویزے کی معیاد بڑھانے کی درخواست کو مسترد کیا ہے کے خلاف عدالت میں جانا ہوگا لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ لندن میں شریف خاندان کے گھر سے خبریں لیک ہونے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے یا پھر اس لئے رک گیا کہ نواز شریف کی خبروں کو پاکستانی میڈیا پر پابند کیا گیا ہے اور کوئی میڈیا اسکو نہیں چلا سکتا پھر بھی ویزا ختم ہونے کی خبر بریکنگ نیوز بن کر سامنے آئی اور سب سے حیران کن بات یہ تھی اتنے مستند رپورٹر لندن میں موجود ہیں جو آئے روز خبریں بریک کرتے ہیں کہ ہوتے ہوئے پاکستان اسلام آباد سے یہ خبر بریک ہوئی اور اسلام آباد کا ایک رپورٹر جو کہ وزارت داخلہ کی بیٹ کور کرتا ہے نے یہ خبر بریک کی اب اسکا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وزارت داخلہ سے یہ خبر لیک ہوئی چلو مان لیا اب دوسرا سوال یہ ہے کہ برطانیہ نے ویزا مسترد ہونے کی اطلاع پاکستانی وزارت داخلہ کو دی ؟ لیکن یہ کیسے ممکن ہوا ؟ برطانوی قانون کے مطابق ہم کسی کے امیگیریشن سٹیٹس یا درخواست کو کسی بھی دوسرے فریق یہاں تک کہ اس شخص کی اولاد یا ماں باپ کے ساتھ بھی شئیر نہیں کرسکتے نا ہی ہوم آفس کرتا ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو اسکو جرم سمجھا جاتا ہے جو کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے خیر کیسے خبر لیک ہوئی یا کروائی گئی کئی سوال پیدا کرتی ہے۔

(جاری ہے)


اب اصل مداع یہ ہے کہ نواز شریف کے قریبی ذرائع نے لندن سے رابطہ کرنے پر اس خبر کی تصدیق کردی اور بنا کسی ہیلے بہانے فوری مان لیا گیا کہ ویزا مسترد ہو گیا ہے مطلب اس خبر کے لیک ہونے میں کہیں مرضی بھی شامل تھی لیکن کیوں ؟ نواز شریف اور انکا بیانیہ پھچلے کئی دنوں سے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور خاص طور پر شہباز شریف کے سلیم صافی کو انٹروویو کے بعد تو یہ سلسلہ بہت ہی زور پکڑ گیا اور پھر وہی مفاہمت اور ووت کو عزت دو کے دو کے مختلف زاویے بننے لگے لیکن چند دن میڈیا پر کھینچا تانی کرکے وہی گھسا پٹا جواب آ گیا کہ ہم سب ایک ہیں خاندان اور بھائیوں میں کوئی اختلاف نہیں فلاں فلاں فلاں ، بھائی چلو ہم نے پھر مان لیا لیکن آخر چاہتے کیا ہیں ؟ کیا ہونے جا رہا ہے ؟ نواز شریف واپسی کا فیصلہ کرچکے ہیں ؟ شہباز شریف کی طرف سے یہ بیان دینا کہ بھائی کو قائل کر رہا ہے پھچلی باتوں کو بھلا دیں آگے بڑھیں میں کتنا دم ہے ؟
نواز شریف کے ویزے کے مسترد ہونے کی خبر نے نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے کہ نواز شریف کو تمام اپیلیں مسترد ہونے پر ڈی پورٹ کردیا جائے گا تو بھائیوں خاطر رکھو ایسا کچھ نہیں ہونے والا پہلی بات کرونا کی وجہ سے عدالتوں کا نظام بہت سست ہوچکا ہے آجکل نارمل ویزے کی درخواست پر اٹھ ماہ بعد فیصلے ہو رہے ہیں یعنی اگر نواز شریف دو اپیلیں کرسکتے ہیں تو مطلب ڈیڈھ سال وہ ان اپیلوں کی بیس پر گزار سکتے یہں اور اگر یہ اپیلیں بھی مسترد ہو جائیں تو بطور دو برطانوی بچے حسین اور حسن کے والد ہونے کی حیثیت سے وہ ایک نئی درخواست دائر کرسکتے ہیں جو کہ مسترد ہونے کی صورت میں مزید دو سال گزر سکتے ہیں سو نواز شریف ڈی پورت ہونے والے ہیں کو بالکل بھول جائیں ایسا کچھ نہیں  ہو رہا عمران خان اور انکی جماعت وقتی طور پر اپنے ووٹر اور کارکن کو یہ کہ کر خوش تو کرسکتے ہیں کہ نواز شریف کو واپس لا رہے ہیں لیکن اس دعوے میں زرا برابر بھی دم نہیں ہے کبھی فواد چوہدری تو کبھی مراد سعید کو شعلہ بیانی کو موقع تو ملے گا لیکن نواز شریف نہیں ملے گا ۔


آگے بڑھتے ہیں یعنی بات کرتے ہیں مریم اور شہباز شریف کے درمیان سرد جنگ کی خبریں کشمیر الیکشن میں شہباز شریف کی مکمل خاموشی یہ سب واضع کرچکے کہ دونوں کے درمیان سرد جنگ چل رہی ہے لیکن انکا ٹویٹر چیک کریں تو پھر وہی ہم سب ایک ہیں کے بیان داغ دیتے ہیں پر ایسا اب رہا نہیں لیکن اس سے انکی پارٹی کے درمیان بہت مسئلہ بن رہا ہے احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی میڈیا پر صفائیاں دیتے رہتے ہیں کہ بھائیوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن محمد زبیر کو سنیں تو وہ کہتے ہیں شہباز شریف کی وجہ سے ہمارے بیانیئے کو نقصان ہو رہا ہے اب بندا کس کی مانے ؟ عمران خان کے پاس اچھا ٹول یہ ہے کہ وہ معیشت بہتر کریں نا کریں بس نواز شریف کے خلاف بیان دیتے رہیں انکی سیاست چلتی رہے گی ملک چلے نا چلے انکا ورکر لڈیاں ڈالتا رہے گا اور پھر ایسے ہی مزید دو سال بھی گزر جائیں گے اور اگلا الیکشن آ جائے گا  ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :