نعت کے شامیانے میں گلوکاروں کی آمد

منگل 11 مئی 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

نعت اپنے موضوع کی یکتائی اور اظہار کے متنوع  قرینوں کے حیرت انگیز او ر حسین مظاہر  کی اپنی الگ تاریخ رکھتی ہے ۔اس کا ہر پہلو محبتوں کا لالہ زار اورہر زاویہ عقیدتوں کی کہکشاں ہے۔   کیوں نہ ہو کہ کائنات میں ظہور پذیر ہونے والی ہر گھڑی" ورفعنا لک ذکرک" کے نئے پرتو کی معجز نمائی لئے ہوئےہے اورہر زمانہ عقیدتوں اور محبتوں کے نئے زاوئیے روشن کرتا چلا جا رہا ہے۔

یہاں نہ لکھنے والوں  کے قلم کی سیاہی خشک ہوتی ہے، نہ پڑھنے والوں کا ترنم پرانا محسوس ہوتا ہے اور نہ سننے والوں کی سماعتیں کسی اکتاہٹ کا شکار ہوتی ہیں۔نعت کے حوالے سے آج کل  ایک نیا ٹرینڈ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے جو کئی حوالوں سے  بہت خوش آئند ہے کہ ممتاز سنگرز پرانی پڑھی ہوئی معروف نعتوں کو اپنی آوازوں میں میوزک کے نئے انداز کے ساتھ ری مکس کر کے پڑھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں ایک طرف تو کوئی خاص محنت درکار نہیں ،مقبول  عام اور زبان زد عام  کلاموں کی کانوں میں رچی بسی  دھنیں جن سے سننے والے پہلے سے مانوس ہوتے ہیں اور دوسری طرف انہیں نئی  آوازوں میں  نئے سرے سے جدید آلات پر ریکارڈ کرکے بہتر انداز سے پیش کیا جا رہا ہے ۔یہ کلام جس زمانے میں ریکارڈ ہوئے تھے اس وقت نہ تو سوشل میڈیا کی برق رفتاری تھی،نہ ہی ریکارڈنگ کی  نت نئی ایجادات کی سہولت اور نہ ہی ان کلاموں کو فلمائے جانے کے آج جیسے بہترین ذرائع موجود تھے۔

اس وقت صرف ایک ہی میڈیم تھا جسے   مختلف معنوں میں شوق ،محنت اور لگن کہتے تھے جس کے ثمرات آج دہائیوں بعد بھی  محسوس کئے جا سکتے ہیں۔آج   میوزک کے حوالے سے شہرت رکھنے والے احباب بہت سے گانے ریکارڈ کرواتے ہیں لیکن ان میں سے بہت مشکل سے  ہی کوئی گانا ہٹ ہو کر مقبولیت  اور شناخت بنا پاتا ہے لیکن نعت کا اعجاز دیکھئے کہ دہائیوں سے پڑھے جانے والے کلاموں کو جب نئے سرے سے ترتیب دیا جا رہا ہے تو یہ تیزی سے سوشل میڈیا پر ہر طرف دیکھے اور سنے جا رہے ہیں۔

نعت کے حوالےسے موجودہ ٹرینڈ نے بہت جلد کامیابی کی منازل طے کی ہیں اور اب موسیقی سے تعلق رکھنے والے بیشتر حضرات اس مبارک تحریک کا حصہ بن رہے ہیں جس سے ایک طرف ان کلاموں اور دھنوں کے بنانے والوں کو نئی زندگی مل رہی ہے اور دوسری طرف نئے لوگوں کو محبت اور پذیرائی سے نوازا جا رہا ہے اور اس کا خوش آئند پہلو میوزک سننے والے بہت بڑے حلقے میں نعت کی آواز کا غیر محسوس طریقے سے سرائیت کرنا ہے جسے میں بہت مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جانا چاہئے ۔


بین الاقوامی سطح پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو میوزک انڈسٹری میں  ماھر زین اور سمی یوسف  اور اس طرح کے دیگر قابل ذکر لوگوں نے نعت کے حوالے سے عالمگیر شہرت پائی اور شائد ان کی یہی حیرت انگیز کامیابی ہمارے  ہاں میوزک سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اس طرف مائل کرنے کا سبب بنی ۔ میوزک چونکہ پاکستان کی بڑی انڈسٹری ہے، اس پر پیسہ لگانے والے بہت بڑے بڑے ادارے اور لوگ موجود ہیں جن کے ذریعے نعت ایک نئے انداز سے نمو پذیر ہوئی ہے جس نے اس  صنف کے حوالے سے کامیابی کا ایک نیا دروازہ کھولا ہے ۔

مرحوم جنید جمشید نے بھی گلوکاری چھوڑنے کے بعد بہت سی دلآویز نعتیں پڑھیں جو آج بھی زبان زد عام ہیں ۔یقیناً ان کو سننے والی آڈینس نے ان کی نعت خوانی کو بھی بے پناہ پذیرائی بخشی۔ عاطف اسلم موجودہ عہد میں گلوکاری کے حوالے سے بین الاقوامی شناخت اور پہچان رکھتے ہیں۔صابری برادران کی پہچان بننے والی شہرہ آفاق قوالی "تاجدار حرم" معروف میوزک پروموٹر کمپنی کوک سٹوڈیو اور عاطف اسلم کی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سنی جانے والے کلاموں میں سے ایک ہےجسے اسی تناظر میں نئی زندگی ملی ۔

اس کے علاوہ انہوں نے مصطفےٰ جان رحمت، اسمائے باری تعالیٰ بھی بہت دلنشین انداز میں پڑھے ہیں۔حال ہی میں ممتاز سنگر علی ظفر نے بھی "بلغ العلی بکمالہ" کو خوبصورت انداز سے پڑھا ہے جو بہت جلد مقبولیت کی بلندیوںکو چھونے لگا ہے۔ استاد رفاقت علی خاں کی پڑھی ہوئی مظفر وارثی مرحوم کی  نعت "تو کجا من کجا" جسے مرحوم استاد نصرت فتح علی خاں صاحب نے کمپوز کیا  کو ان کی آواز میں بے پناہ محبتوں سے نوازا گیا جس سے رفاقت علی خاں صاحب نے بھی کچھ اور نعتوں کی طرف توجہ کی ہے جن میں "مرا پیمبر عظیم تر ہے"  اور حال ہی میں مقبول سلام 'اے صباء مصطفےٰ سے کہہ دینا" بھی شامل ہے جسے بہت پسند کیا جا رہا ہے۔

موسیقی سے تعلق رکھنے والوں کو بہت دیر سے سہی لیکن بالآخر یہ خیال توآیا کہ یہ کتنی بڑی پبلک ہے جسے وہ عرصہ دراز سے نظر انداز کر رہے تھے ۔موسیقی سے نعت کے شامیانے میں آنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں بعد میں اسی حوالے سے جانا اور پہچانا جانے لگا۔نعت نے اپنے سائے میں آنے والےایسے لوگوں  کو بھی باوقار بنایا جومسلکی اعتبار سے اس کے قریب نہیں تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے عشاق کے دلوں پر راج کیا ہےاور اسی کی برکت سے عزت شہرت اور دولت  کمائی۔

یہ پہلو بھی بہت دلچسپ ہے کہ ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو گلوکاری سے نعت خوانی کی طرف آئے اور انہیں بہت عزت بھی ملی اور اعزازات بھی ۔ ملکہء ترنم نور جہاں کے بارے میں  یہ بات مشہور ہے کہ جب بستر علالت پہ تھیں تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اب اگر میں صحت یاب ہوئی تو اس گلے سے صرف نبی کی نعت ہی پڑھوں گی۔برصغیر کے نامور گائیک استاد مہدی حسن اور غلام علی کی آوازیں بھی اس مبارک ذکر سے محروم نہیں رہیں۔

لتا منگیشکر اور محمد رفیع صاحب کی پڑھی ہوئی نعتیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔اس سارے منظر نامے میں ایک بات بہت عجیب محسوس ہوتی ہے کہ گلوکاری سے شہرت حاصل کرنے والے نعت کے مزاج سے مطابقت رکھنے والی  معروف نعتیں پڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف نعت کے شعبے سے شہرت حاصل کرنے والے بعض حضرات معروف گانوں پر نعتیں لکھوا کر پڑھنے کی کوشش  میں اس مبارک فن کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں ۔

ان قوالوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جوقوالی کے مقدس اور روحانی فن میں نام بنانے کے بعد قوالی نائٹ کے نام پر مستی سے معمور غزلیہ  شاعری کو قوالی کے نام پر پڑھنے لگ گئے ہیں جس سے اس فن کی آبرو پر سوال اٹھنے لگے ہیں ۔لیکن بہر حال اس سارے منظر نامے میں یہ حقیقت ان تمام لبرلز، سیکولر اور مغرب نواز میڈیا پر آشکار ہو جانی چاہیے کہ یہ ارض وطن  قریہء عشق رسولﷺ ہے۔

یہاں کی مٹی رحمت عالم کی محبتوں سے مہک رہی ہے۔یہاں رہنے والوں کے دل گنبد خضراء کی ہریالی سے ٹھنڈک  کشید کرتے ہیں۔ یہاں  کے مکینوں کی سانسیں مدینے کی ہواؤں  کی خوشبوؤں میں رچی بسی ہیں ۔پاکستانیوں کے جسم رہتے تو یہاں ہیں لیکن ان کی روح مدینے کے درو دیوار سے لپٹی رہتی ہیں اور ان کی آنکھیں روضۂ رسول کی جالیوں کے تصور میں گم رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر کوئی   نعت کے شامیانے  تلے عافیت اور قرار محسوس کرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :