پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت اورکلام مظفر وارثی

جمعرات 24 جون 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

پنجاب  اسمبلی کی نئی پر شکوہ عمارت  اور اس کے ماتھے پر ختم نبوت کے حوالے سے حدیث مبارک "انا خاتم النبین، لا نبی بعدی" کندہ کروانا بلاشبہ سپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی صاحب کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر بلا شبہ ان کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ نئی عمارت کی تعمیر کا آغاز بھی انہی کے دور میں ہوااور تکمیل کا لمحہ بھی انہی کے حصے میں آیا۔

  پنجاب قرآن اینڈ سیرت  انسٹیٹیوٹ  او رپنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لئے پلاک جیسے ادبی ادارے قائم کرنا ان کی دینی اور ادبی دلچسپی کی غماز ہے۔اچھے کام کا کریڈٹ اس کے کرنے والے کو نہ دینا قلمی خیانت  کے زمرے میں آتا ہے۔قادیانیت کے دنیا بھر اور خصوصا پاکستان میں سر اٹھاتے فتنے کو جس  اہم فورم پر انہوں نے پسپا کیا وہ ہمیشہ ان کے خاندان کے  اعزاز کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی میں تلاوت کے بعد نعت پڑھے جانے کا قانون پاس ہونے کے بعد ابتدائی لوگوں کے پینل میں میرا نام بھی  شامل کیا گیا اور کم  و بیش ایک دہائی سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔اس دوران دیگر سپیکر صاحبان کے برعکس میں نے غیر محسوس طریقے سے نوٹس کیاکہ چوہدری پرویز الہٰی نعت کے دوران پورے انہماک سے متوجہ رہتے ہیں اور بعض اوقات اپنی پسندیدگی کا اظہار روک کر تحسینی جملوں اور  مسکراہٹ سے  بھی کرتے ہیں ۔

سرکاری فورمز پر اگرچہ نعت کا پڑھاجانا ایک بابرکت روایت تو ہے لیکن اکثر و بیشتر اسے معمول کی کاروائی ہی سمجھا جاتا ہے لیکن موجودہ سپیکر صاحب کا رویہ میں نے ہمیشہ سب سے مختلف پایا اور انہیں نعت  کی کیفیات میں سفر کرتے ہوئے محسوس کیا۔ پنجاب اسمبلی کی اس نئی عمارت کے افتتاحی اجلاس کے لئے جب نعت کے لئے میرا انتخاب کیا گیا تو میں معمول کے مطابق کسی کلام کو پڑھنے کے لئے منتخب کر رہاتھا کہ اسمبلی سے کال کی گئی کے سپیکر صاحب کی خواہش ہے کہ آج افتتاح کے موقع پر مظفر وارثی صاحب کا یہ کلام پڑھا جائے جو مجھے بھجوایا گیا۔

میرے لئے مقام حیرت تھا کہ یہ ایک خاص موضوع کے حوالے سے لکھی گئی نعت تھی اور نعت سے گہرا شغف رکھنے والے بیشتر حضرات بھی اس کلام سے بخوبی ا ٓگاہ نہیں ۔میں نے یہ اشعار آج سے کوئی چار سال قبل انتخاب کر کے ان کو محافل میں باقاعدہ پڑھنا شروع کیا تھا ۔اسمبلی سے کہا گیا کہ اس کلام کوآڈیو میسج کی صورت ریکارڈ کر کے بھجوا دیں تا کہ سپیکر صاحب کو اس حوالے سے اطمینان ہو جائے کیونکہ وہ اس کے لئے کافی پرجوش ہیں۔

میں نے نمونے کے طور پر تین اشعار بھجوا  دئیے جو سننے کے بعد دوبارہ  کال آئی کہ آپ نے اس  کلام کا سب سے اہم شعر جو آخر میں تھا وہ کیوں نہیں پڑھ کے بھجوایا تو میرے لئے حیرت در حیرت کا معاملہ ہوتا چلا گیا۔اس کے بعد ہدایات دی گئیں کے  آج آپ نے اس کلام کے مکمل اشعار پڑھنے ہیں۔ تلاوت کلام پاک  سعادت ممتاز قاریء قرآن  عزیز دوست اور قاری نور محمد مرحوم کے صاحبزادے قاری عبدالماجد نور کے حصے میں آئی۔

اس کے بعد میں ڈائس پر پہنچا تو اس سے قبل سپیکر صاحب گویا ہوئے اور اس نعت کو خاص طور پہ پڑھے جانے کا بتایا کہ میری خواہش  پر یہ کلام آج  پیش کیا جا رہا ہے اور اسی دوران انہوں نے اپنی کرسی کے  عین اوپر تحریر کی گئی اس حدیث مبارکہ  کی طرف بھی اشارہ کیا جس کے آخری ٹکڑے کواس نعت میں ردیف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔  آئیے اس امر ہوجانے والی نعت کے اشعار دہراتے ہیں کہ یہ ہمارے عقیدے اور ایمان کی ترجمان ہے ۔

آخری شعر خاص توجہ سے پڑھئے گاجس کو لازمی پڑھنے کا کہا گیا تھا۔
خود مرے   نبیؐ نے بات یہ بتا دی، لا نبی بعدی
ہر زمانہ سن لے یہ نوائے ہادی ، لانبی بعدی
لمحہ لمحہ ان کا تاک میں ہوا کے جگمگانے والا
آخری شریعت کوئی آنے والی اور نہ لانے والا
لہجہء خدا میں آپ نے صدا دی، لا نبی بعدی
تھے اصول جتنے ان کے ہر سخن میں نظم ہو گئے ہیں
دیں کے سارے رستے آپ تک پہنچ کر ختم ہو گئے ہیں
ذات حرف آخر، بات انفرادی، لا نبی بعدی
ارتقائے عالم صرف نام ان کے، کر دیا خدا نے
اُن کی خوش نصیبی جن کے ہیں وہ آقا، جو غلام ان کے
گونجے وادی وادی آپ کی منادی، لانبی بعدی
ان کے بعد اُن کا مرتبہ کوئی بھی پائے گا نہ لوگو
ظلّی یا بروزی اب کوئی پیمبر آئے گا نہ لوگو
آپ نے یہ کہہ کر مہر ہی لگا دی، لا نبی بعدی
میرے لئے حیرت کامقام تھا کہ سپیکرصاحب نے یہ مکمل  نعت نہ صرف سن رکھی تھی بلکہ اس کے اشعار کی معنویت سے بھی  واقف تھے۔

آخری شعر  کو لازمی پڑھے جانے کی تاکید ان کے عقیدہ ختم نبوت پر کامل ایمان اور محبت رسول کریم کی آئینہ دار ہے۔نعت کے بعد جب میں ڈائس سے واپس جانے لگا تو اراکین اسمبلی، صوبائی وزراء اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں انہوں نے مجھے دروازے کے قریب سے واپس بلا کر داد و تحسین سے نواز ا جو یقیناً باعث افتخار و انبساط ہے۔اسمبلی کی نئی عمارت   کے پہلے اجلاس میں نعت کی سعادت  ایک منفرد اعزاز ہے  جو ہمیشہ ساتھ رہے گالیکن اس موقع پر جو کلام پڑھنا میرے حصے میں آیا وہ اس اعزاز سے   بھی کہیں فزوں تر ہے ۔

مظفر وارثی کی نعت پڑھتے ہوئے یہ احساس آج اور بھی پختہ ہو گیا کہ انسان  اپنے تخلیق کئے ہوئے لفظوں کے ساتھ مرنے کے بعد بھی  زندہ رہتا ہے اور یہ زندگی تخلیق کے روشن لمحوں کی برکت سے مرنے کے بعد زندہ تر ہو جاتی ہے۔ انسان دنیا سے چلاجاتا ہے لیکن  وہ اپنی تخلیق کی خوشبو کے  ساتھ ہمارے آس پاس موجود رہتا ہے ۔ ایک وہ زندگی ہے جس کا تعلق سانسوں کی ڈور سے ہوتا ہے لیکن اسی  کے  ہم قدم ایک پہچان  اور فن کی زندگی بھی نمو پا رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ پہچان مدح رسالت مآبؐٔ کے حوالے سے ہو تو اس پر بجا طور پہ رشک کیا جانا چاہئے۔اللہ کریم مظفر وارثی کی روح کو آسودہ رکھے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :