”سیاست حکمت ہی ایسی“

بدھ 2 جون 2021

Shafay Mughal

شافع مغل

سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کے بعد ن لیگ نے احتجاجی طور طور پر یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر ماننے سے انکار کردیا، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز کو اپوزیشن لیڈر ماننے سے انکار کر دیا۔
خدا جانے یہ کسی سیاست ہے، کیا حکمت ِ عملی ہے اپنے مفادات کے لیے کچھ کرسکتے ہیں، کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔


یہی سیاسی لوگ کچھ دن پہلے ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوۓ تھے، تقریباً پی ڈی ایم کا نام و نشان ختم ہوچکا تھا،لیکن خیر چھوڑئیے! سیاست حکمت ہی ایسی ہے کہ بڑوں بڑوں کو ایک دوسرے کے در پر لے آتی ہے، جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے
”سیاست حکمت ہی ایسی“
ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو مجبور کرنے کی کوشش کی تو پی پی پی نے حکمت علمی اختیار کی اور اپنے راستے پی ڈی ایم سے الگ کر لیے، کیونکہ اگر پیپلز پارٹی استعفے دے دیتی تو سندھ حکومت ہاتھوں سے نکل جاتی۔

(جاری ہے)

جبکہ پیپلز پارٹی نے حکمت علمی پر عمل کرتے ہوۓ مناسب فیصلے کیا، اور استعفے دینے سے انکار کر دیا اور پھر پی ڈی ایم سے اپنا راستہ الگ کرلیا۔
پی ڈی ایم کی طرف لانگ مارچ کا اعلان، دوسری طرف آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس کرتے ہوۓ شرط عائد کر دی کہ نواز شریف وطن واپسی آ کر پی ڈی ایم کی تحریک میں شامل ہوں،اور تحریک میں شامل ہونے کے بعد استعفوں کا سوچا جاۓ گا، آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاست کا باب ہیں یعنی کہ بوس ہے بوس۔


نہ نواز شریف نے واپس آنا اور نہ پیپلز پارٹی نے استعفے دینے بلکہ ایک طرفہ انکار ۔ زرداری صاحب کی یہی بات کہنے کی دیر تھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما میدان میں آگۓ اور لفظی گولہ باری شروع۔دوسری طرف شہباز شریف کی ضمانت کے بعد ایف آئی اے احکام کی طرف سے لندن جانے سے روک دیا گیا، ابھی تک تاحال باہر جانے نہیں دیا گیا۔ شہباز شریف صاحب نے سیاسی مصروفیات کو بحال رکھنے کے لیے ایک دفعہ پھر سے پی ڈی ایم کو متحد کرنے کے لیے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔

جس میں پی ڈی ایم کو مدعا کیا گیا۔ شہباز شریف کی سمجھ آتی ہے کہ ان کو باہر جانے سے روک دیا گیا ،جب تک باہر جانے کی اجازت نہیں مل جاتی تب تک سیاسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اور سیاسی صورت حال بحال رکھنے کے لیے پی ڈی ایم کو مدعا کیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی کو بالخصوص دعوت دی گئ، عشائیہ میں چیئرمین بلاول بھٹو نے شرکت نہیں کی، دیگر دوسرے پی پی پی رہنماؤں نے شرکت کی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر بلاول بھٹو عشائیہ میں شریک ہوتے تو زیادہ خوشی ہوتی۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے سیاسی مفادات کے لیے سیاسی قیادت کے نظریات یکسا۔افسوس ہے کہ اپنے مفادات کے لیے سب ایک پلٹ فورم پر موجود جبکہ ملکی وقومی کی فکر کسی کو نہیں۔
عوام بے وقوف سیاسی لیڈر جسے کہتے ویسے مر مٹنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں،اس قدر جاہل ہجوم اپنی ذات تک کا خیال نہیں کرتے۔


یہاں ہجوم کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں دیتا، لیکن کیا کریں جو ہے وہی بیان کر رہا ہوں حقیقت کو تسلیم کرنے پڑۓ گا۔
خیر چھوڑئیے!
جیۓ بھٹو، ن لیگ ، دونوں ایک دفعہ پھر سے ایک ہی صف میں کھڑے ،شہباز شریف کی پی ڈی ایم کی گاڑی کے ٹائر میں ہوا بھرنے کی ایک دفعہ پھر سے کوشش ناکام ، جبکہ شہباز شریف نے اسمبلی میں ایک ساتھ رہنے کو اہمیت دے رکھی ہے، جون میں 21-22 بجٹ بل پیش ہونے جا رہا ہے جس کی نہ منظور کرنے کے لیے کوشش کی جاۓ گی، لیکن پیپلز پارٹی اس بار پھر سے ن لیگ کے ساتھ ہاتھ کر جاۓ گئ۔

(ذاتی خیال)
میثاق معیشت ، میثاق جمہوریت کی باتیں سب ڈرامہ، صرف اور صرف اپنے مفادات اور کرپشن بچینے کے لیے پی ڈی ایم کی شکل میں جنگ کی جارہی ہے۔ 73 سالوں میں قوم کی حالت نہیں بدلی, وہی درپیش مسائل جو آزادی کے وقت تھے، عام عوام کی بات کوئی نہیں کرتا، مشکلات کا حل کوئی نہیں، کوئی کس حال میں مر رہا ہے کسی کو کوئی پروا نہیں، مسلئے ہی مسلئے پانی،گیس، بجلی،پٹرولیم، آٹا،چینی، سبزیاں دالیں مہنگی، گندم کی قلت ، آج تک یہ مسائل حل نہیں ہوۓ، اور دعوے انقلابی دھاکے ہیں سب ڈرامے...
خیر چھوڑئیے سیاست حکمت ہی ایسی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :