
صحت عامہ کا تحفظ ، اقتصادی سماجی ترقی کی ضمانت
جمعرات 4 جون 2020

شاہد افراز خان
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں نوول کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون سمیت دیگر پابندیوں میں نرمی کر دی گئی ہے۔امریکہ اور یورپی ممالک میں بھی مزید معاشی نقصانات سے بچنے کی خاطر پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ امریکہ کو اس وقت نوول کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ نسلی امتیاز کے وائرس کا بھی سامنا ہے اور صورتحال کافی کشیدہ ہے ۔ ایک جانب امریکہ میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد اٹھارہ لاکھ سے بڑھ چکی ہے تو دوسری جانب ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور پرتشدد سرگرمیوں میں شدت آ چکی ہے۔
(جاری ہے)
وبائی صورتحال کے تناظر میں عالمی ادارہ صحت سمیت طبی ماہرین نے وبا کی دسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا ہے اور تمام ممالک کو خبردار کیا ہے کہ انسداد وبا کے اقدامات میں نرمی یا لاپرواہی سے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ بحث بھی جنم لے رہی ہے کہ انسانی جانوں کا بچانا زیادہ ضروری ہے کہ معیشت کا پہیہ رواں رکھنا۔ایک جانب امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک ہے جہاں وبا کے باعث کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں ،دوسری جانب پاکستان اور دیگر ترقی پزیر ممالک جہاں کی معیشتیں مزید صنعتی جمود کی متحمل ہی نہیں ہو سکتیں ، ایسے میں لاک ڈاون کے خاتمے کے سوا دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی اگر بات کی جائے تو انسانیت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اسے ایک کٹھن آزمائش قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ماضی میں دنیا کے اکثر ممالک میں صحت کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا حق بنتا تھا یا یہ سوچ لیا گیا تھا کہ آج کی سائنسی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھرپور دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانیت کو کسی وبا کے خطرے کا سامنا ہو۔ حد سے زیادہ خوداعتمادی نے یہ دن دکھایا کہ آج پوری دنیا نوول کورونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکی ہے۔
کورونا وائرس نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں وائرس یا وبا صرف ایک ملک ،خطے یا جغرافیے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر ملک اس کا شکار ہو سکتا ہے۔کسی ایک ملک کا وبائی صورتحال پر قابو پا لینا یقیناً کامیابی تو ہے مگر جب تک دنیا کے سبھی ممالک سے وائرس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اُس وقت تک کسی بھی ملک کی جیت نہیں ہو گی کیونکہ وبا کا خطرہ بدستور منڈلاتا رہتا ہے۔ لہذا ہر ملک میں صحت عامہ کا مضبوط نظام تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔نوول کورونا وائرس کے آغاز میں امریکی صدر ہمیشہ کہتے رہے کہ اُن کے پاس دنیا کے بہترین طبی ماہرین اور سائنسدان موجود ہیں جو کسی بھی ایسی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج امریکہ دنیا میں وائرس سے متاثرہ سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور تو اور امریکی صد اپنے صدارتی محل " وائٹ ہاوس" کو بھی وائرس کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وبا کا خاتمہ کیسے کیا جائے بالخصوص ایسے وقت میں جب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ نوول کورونا وائرس بہت جلد ہماری جان چھوڑنے والا نہیں ہے اور انسانیت کو فی الحال اس کے ساتھ رہنے کی عادت اپنانا ہو گی جیسا کہ ایچ آئی وی ایڈز بھی اس وقت ہمارے معاشروں میں رچ بس چکا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عالمی تعاون ہی وہ بنیاد ہے جس کے باعث وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ہم نے یہ تو جان لیا کہ وائرس کسی قومیت ،رنگ ،نسل ،جنس میں تمیز نہیں کر رہا ہے ۔یہ امیر،غریب،چھوٹے ،بڑے ہر ایک کو نشانہ بنا سکتا ہے لہذا ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک میں صحت کے شعبے کی ترقی کو اہمیت دیں۔ایسا کرنا خود اُن کے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاو ،غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری میں اضافہ، ایوی ایشن انڈسٹری کی تنزلی ،سیاحت کے شعبے میں گرواٹ،عالمی کساد بازاری اور بڑی معیشتوں میں شدید مندی "گلوبل ویلج" کی اہمیت کی عکاس ہیں۔عالمی ملٹی نیشنل کمپنیاں مصنوعات تو تیار کرلیں گی مگر انہیں صارف بھی تو چاہیے اور چیزیں بھی اسی وقت خریدی جائیں گی جب حالات سازگار ہوں گے۔
اسی طرح طبی شعبے کی سائنسی پیمانے پر ترقی کی اہمیت بھی مزید عیاں ہوئی ہے۔طبی آلات بالخصوص طبی عملے کے لیے حفاظتی لباس کی کمی سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ماضی میں اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وبا کی شروعات میں ماسک ،وینٹیلیٹرز ،طبی لباس اور دیگر امدادی سازوسامان کی کمی نے پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگرچہ مکمل خودکفالت ممکن نہیں مگر ہر ملک کے پاس اتنے وسائل تو ضرور موجود ہوں کے کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔اس ضمن میں پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سال دو ہزار پینتیس تک دنیا بھر کو تقریباً تین کروڑ پیشہ ور طبی ماہرین کی کمی کا سامنا ہو گا۔اس ضمن میں مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی ہیلتھ اور آرٹیفشل انٹیلی جنس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ممالک میں طبی وسائل کی دستیابی ،سائنس و تحقیق کے فروغ اور طبی آلات کی تیاری جیسے شعبہ جات کو مزید اہمیت دی جائے کیونکہ ٹیکنالوجی کا حصول یا فوری جدید ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی فی الحال اتنا آسان نہیں ہے۔
یہاں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے عوامی انفرادی اور اجتماعی رویے بھی اہم ہیں۔وبا سے بچاو کی خاطر عوام کا "صحت دوست" اصولوں پر کاربند رہنا یقیناً سب سے اہم عنصر ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاون کے دوران مجموعی طور پر دیکھا گیا کہ عوام کی اکثریت نے حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ پاکستان میں وبا کی موجودہ سنگین صورتحال اور لاک ڈاون میں نرمی کے بعد پرہجوم مناظر کسی طور پر خوش آئند نہیں ہیں ۔وائرس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور پچھتاوا ہمارا مقدر بن جائے۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.