علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب

بدھ 27 اکتوبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پھنگ نے دو ہزار تیرہ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو پیش کیا تھا جسے آج عالمی حلقوں میں مشترکہ مفاد اور  اشتراکی ترقی کا بہترین اور قابل عمل نمونہ قرار دیا جاتا ہے ۔سترہ نومبر دو ہزار سولہ کو  اسےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں شامل کیا گیا اور 193 رکن ممالک نے اس پر اتفاق رائے کیا۔

گیارہ ستمبر دو ہزار سترہ کو   اقوام متحدہ کی71  ویں جنرل اسمبلی نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹوکے "جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات " کے اصول کو عالمی اقتصادی گورننس کے تصور میں شامل کیا ۔چین نے اس انیشئیٹو کےتحت تعاون کو مثبت طور پر فروغ دیا ہے اور اعداد وشمار ظاہر  کرتے ہیں کہ دوہزار تیرہ سے دو ہزار بیس تک چین کی دی بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے ساتھ تجارت کی کل مالیت 92 کھرب امریکی ڈالرز سے زائد رہی ہے۔

(جاری ہے)

حیرت انگیز طور پر دو ہزار اکیس کی پہلی ششماہی میں یہ مالیت 08 کھرب 24 ارب 55 کروڑ ڈالر تک جا پہنچی ہے ۔  اگست دو ہزار اکیس تک چین نے کل 172 ممالک یا عالمی تنظیموں کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ سے متعلق دو سو سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔آج  بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو عالمی شہرت کی حامل ایک بین الاقوامی عوامی پروڈکٹ اور دنیا میں تعاون کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔


صدر شی جن پھنگ نے جب ستمبر 2013 میں قازقستان کے دورے کے دوران وسطی ایشیا کے لیے ایک نئی "سلک روڈ اکنامک بیلٹ" کے قیام کی تجویز پیش کی تو بہت کم لوگوں نے سوچا ہوگا کہ یہ اقدام کتنا وسیع ہوسکتا ہے۔  آٹھ سال کی محنت کے بعد  " بیلٹ اینڈ روڈ " کا بنیادی ہدف مکمل ہو چکا ہے اور یہ  اعلیٰ معیار کی ترقی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔ آج بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو  اپنی آٹھویں سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے ایشیا کو افریقہ اور یورپ کے ساتھ زمینی اور سمندری نیٹ ورکس کے ذریعے جوڑنے کے مقصد کو احسن طور پر آگے بڑھا رہا ہے  جو علاقائی انضمام کو بہتر بنائے گا، بین الاقوامی تجارت میں اضافہ کرے گا اور اقتصادی ترقی کو تحریک دے گا۔


بیلٹ اینڈ روڈ میں دنیا کی اس قدر دلچسپی کا ایک نمایاں عنصر یہی ہے کہ یہ سرمایہ کاری  منصوبوں کے ذریعے تمام ممالک کی مساوی شرکت کے لیے کھلا ہے۔عالمی سطح پر معاشی ماہرین اور مستند جریدے  پیش گوئی کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ  بی آر آئی کے ثمرات کا پیمانہ بھی انتہائی  وسیع ہوتا جائے گا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں تقریباً 56 مختلف ممالک 2040 میں اپنی سالانہ جی ڈی پی میں 10 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ دیکھیں گے۔


اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس منصوبے میں تیزی آنے کے ساتھ ساتھ مغربی یورپ کے زیادہ تر ممالک اس میں شامل ہوتے جائیں گے۔ اس کی  بنیادی وجہ یہی ہے کہ بی آر آئی کے اہداف میں مربوط پالیسی سازی، انفراسٹرکچر رابطہ سازی، بلا روک ٹوک تجارت، مالیاتی انضمام اور لوگوں کو آپس میں جوڑنا شامل ہیں۔ یوں بی آر آئی باہمی اقتصادی انحصار اور بہتر ثقافتی افہام و تفہیم کے لیے ایک ایسی قوت ثابت ہو سکتا ہے، جس سے "سب کے لیے مشترکہ خوشحالی" کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔


بی آر آئی کے تحت انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں بندرگاہیں، ریلوے، ریلوے سرنگیں، شاہراہیں، ہوائی اڈے، پاور اسٹیشن، ڈیمز اور ٹیلی کمیونیکیشن منصوبے وغیرہ شامل ہیں۔ان میں چین۔پاکستان اقتصادی راہداری بھی شامل ہے جسے بیلٹ اینڈ روڈ کا فلیگ شپ منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری  اور قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی سے بنیادی ڈھانچے کے رابطوں کو تقویت ملے گی اور خطے کے لوگوں کے لیے مشترکہ مستقبل کی تشکیل کی جا سکے گی۔

پاکستان نے سی پیک کے تحت علاقائی رابطوں کو بڑھانے، ٹرانسپورٹ اور تجارت، لاجسٹکس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری دنیا کے سب سے بڑے ریل اور روڈ رابطوں کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ سی پیک کی بدولت گوادر بندرگاہ کو ترقی ملے  گی اور اسے وسطی ایشیا اور چین کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے موئثر طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔

پاکستان اور چین دونوں پر امید ہیں کہ سی پیک کے منصوبے پورے خطے کی خوشحالی اور ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔سی پیک اور  اس جیسے دیگر منصوبہ جات نے چین کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون کو بھی مضبوط کیا ہے۔
بی آر آئی ایک طویل منصوبہ ہے جو اگرچہ مکمل تو  2049 تک ہو  گا مگر دنیا تسلیم کرتی ہے کہ اس کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ترقی کرے گا۔

اس وقت  بی آر آئی عالمی ترقی کا ایک استعارہ بن چکا ہے اور کچھ تخمینوں کے مطابق یہ ممکنہ طور پر 2040 تک دنیا کے جی ڈی پی میں 7.1 ٹریلین ڈالر سالانہ کا اضافہ کرے گا۔ کووڈ۔19کی وبا کے شدید اثرات کے باوجود  " بیلٹ اینڈ روڈ" کی تعمیر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے ، جس نے عالمی برادری کو بھی طاقت اور اعتماد دیا ہے ، اور وبا کے خلاف عالمی تعاون اور معاشی بحالی میں اہم شراکت کی ہے۔

غربت سے نجات ، معاشی ترقی کا فروغ  اور بہتر زندگی کی جستجو  ، دنیا کے تمام  ممالک کی مشترکہ خواہشات ہیں ، اور  یہی وجہ ہے کہ چین کے بیلٹ  اینڈ روڈ انیشیٹو   کو  عالمی سطح پر وسیع پزیرائی اور نمایاں حمایت حاصل ہے ۔پاکستان سمیت دیگر شراکت دار ممالک  کو  بی آر آئی کی بدولت  باہمی سود مند تعاون اور اشتراکی ترقی کے مواقع میسر آ رہے ہیں  اور حقیقی معنوں میں یہی  " مشترکہ مفادات"  پر مبنی پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :