کورونا وائرس‘ اتحاد اور احساس وقت کی ضرورت

پیر 11 مئی 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

کچھ ہفتے قبل تک کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں ملک و قوم کا نہیں بلکہ دنیا کا نقشہ بدل کر رہ جائےگا۔دنیا کی بے ثباتی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ آن کی آن میں ڈھائی سو سے زائد ممالک کو ایک چھوٹے سے جرثومے نے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ ان ممالک میں سوپر پاورز سے لے کر ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک سب ہی شامل ہیں ۔

یہ وہ عالمی وبا ہے جو غریب و امیر کی تفریق کے بغیر حملہ آور ہورہی ہے اور اس کی زد میں شاہ و گدا سب ہی ہیں۔
 میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ میں کیا لکھوں‘ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی تباہ کاریوں کی بات کروں یا وطن عزیز کی حالت زار کی کہانی رقم کروں؟ ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس کی دہائی دوں یا پاکستان میں صحت کی سہولیات کے فقدان پر بات کروںیا پھر ذکر کروں اپنے ان بھائیوں کا‘جو 20مارچ کے بعد سے اب تک ہر روز جیتے بھی ہیں اور مربھی رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ منتظر ہیں کہ کوئی ایسی راہ نکلے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ عزت کےساتھ بھرلیں۔یہ ایک سخت مرحلہ ہے‘ کٹھن وقت ہے کیونکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے جہاں پہلے ہی آبادی کا بڑا حصہ خط غربت سے نیچے سفر کررہا تھا‘ کرونا کی تباہی کے بعد ملک شدید مالی بحران کے شکار ہونے کا اندیشہ ‘ معاشی انحطاط‘بےروزگاری اور غربت کے خطرات لاحق ہیں ۔ ملک کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں مالی وسائل میں مسلسل کمی کے باوجود لوگوں کی ناگزیر ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس وقت ایک جانب احساس پروگرام کے تحت وفاقی حکومت144 ارب روپے سے ایک کروڑ 20لاکھ ضرورت مند گھرانوں کو12ہزار روپے فی خاندان بطور ایمرجنسی کیش مالی امداد فراہم کررہی ہے ‘ دوسری جانب صوبائی حکومتیں‘ سیاسی اور سماجی ادارے بھی اپنا اپنا کردارادا کررہے ہیں جس کے نتیجے میں اُمید ہے کہ کسی کو بھی بدترین مالی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔


 اس مشکل مرحلے کو کامیابی سے طے کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ملک رہنے والے متمول افراد فراخدلانہ تعاون کریںتاکہ ضرورت مندوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے۔وزیر اعظم عمران خان نے سمندر پار پاکستانیوں سے زیادہ سے زیادہ امداد جمع کرانے کی اپیل کی ہے ‘گو کہ اس وقت بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی عالمی اقتصادی بحران کی گردش سے محفوظ نہیں‘ لیکن یہ وقت ایثار کا طالب ہے اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی حب الوطنی کا واضح مظہرہوگا۔

وقت کا تقاضا ہے کہ اس سرزمین کے وسائل سے پچھلے عشروں میں بے حساب دولت کمانے والے آج حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے اس ملک کی بقا و سلامتی کیلئے دل کھول کر وسائل فراہم کریں کیونکہ بچ گئے تو دولت کمانے کے راستے کھلے رہیں گے بصورت دیگر غریب اور امیرکسی کو بھی بربادی سے نہیں بچایا جاسکے گا۔
ایسے کڑے وقت میں بھی ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والی سیاسی جماعتوں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔

سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی محاذ آرائی پر کہیںتو کیا کہیں؟ صرف ایک سوال ہے کہ کیا یہ وقت ایسی باتوں کا ہے؟ اگر انسانیت زندہ ہے اور احساس سلامت ہے تو پھر ایسے نازک وقت میں اتحاد نہ بھی کریں تو بھی کم از کم محاذ آرائی کا سلسلہ ترک کردیں۔
بحیثیت پاکستانی ماضی میں ہم نے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ‘ رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر بڑی ‘بڑی مشکلات کا یکجہتی سے مقابلہ کیا ہے۔

یہ بھی ایک ایسا ہی کڑا وقت ہے جس نے ہر ایک کو موت کے خوف میں مبتلا کررکھا ہے‘ امیر بھی وہیں کھڑا ہے جہاں غریب ہے‘ اس وقت کوئی پیسے والا اس وائرس سے بچنے کیلئے سفر کرکے کسی بھی ملک میں پناہ نہیں لے سکتا‘ہمیں اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو اتحاد اور احتیاط۔بلاضرورت گھر سے نکلنا سب سے خطرناک عمل ہے کیونکہ کرونا کا مریض 15دن تک خود اس بات سے بے خبر ہتا ہے کہ وہ کتنا بڑا خطرہ ساتھ لئے گھوم رہا ہے اسلئے احتیاط کیجئے ‘ اپنے لئے‘ اپنے بچوں کیلئے اور اپنے ملک و قوم کیلئے یہی ہماری اور آپ کی بقا کا واحد راستہ ہے۔

لاک ڈاﺅن کرونا کو روکنے کا ذریعہ ہے لیکن ضروری نہیں کہ لاک ڈاﺅن کے خاتمے کے بعد یہ جراثیم ہماری جان چھوڑ دے گا لہٰذا ایک طویل عرصے تک احتیاطی تدابیر اپنانی ہوں گی کہ اس کے سوا جینے اور جینے دینے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اللہ ہمیں ‘آپ کو ‘ ہر پاکستانی کو اور پوری دنیا میں جہں ‘جہاں انسانیت اس وبا سے متاثر ہے سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :