وکلا گردی یا ڈاکٹرز گردی؟

جمعرات 19 دسمبر 2019

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

گزشتہ دنوں پی آئی سی کے حادثے نے کئی سوالات کو جنم دیا، جہاں سوشل اور الیکڑانک میڈیا چیخ چیخ کر وکلا کی مذمت اور ان کی گرفتاریوں پر شادیانے بجا رہا ہے وہا ں ہر ٹاک شو کا موضوع گفتگو وکلا پر تنزوتنقید کے نشتر برسانا اور نفرت کی آگ کو ہوا دینا ہے۔ کیا کمال کے لوگ ہیں ہم۔ کیا کمال کا فہم و فرست پایا ہے ہم نے۔ کیا کمال کی انسانیت رکھتے ہیں ہم۔

کیا کبھی کسی نے ایک لمحہ کیلیے رک کر سوچا ہے کہ معاشرے کااسقدر اعلی تعلیم یا فتہ اور باشعور طبقہ اس نہج تک کیوں پہنچا آخر کون سی ایسی قیامت برپا ہو گئی تھی کہ وکلا کو انتہائی قدم اٹھنا پڑا۔
 آخر کیوں وکلا اتنی بڑی تعداد میں جان ہتھیلی پر رکھ کر پی آئی سی کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیا اتنی بڑی تعداد کو اتنی آسانی سے گمراہ ا کیا جا سکتا ہے اور کیا کسی قانون کے رکھوالے کو محض کسی معمولی بات پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

کیا ملک کے اس قدر ذی شعور طبقے کو بغیر کسی وجہ کیاور ان کا موقف درست فورمز پر سنے بغیر اس قدر نفرت کا نشانہ بنانا شرافت ہے۔ 
پاکستان کے بیشتر صحافی وکلا کو معاشرے کا بد ترین طبقہ ثابت کرنے پر تولے ہوئے ہیں۔ ان کو نہ تو درست انداز میں میڈیا پر اپنا موقف پیش کرنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کو سنا جا رہا ہے۔ اور دوسری طرف ڈاکٹرز حضرات کے بہیما نہ رویے پر میڈیا مکمل طور پر مجرما نہ خاموشی کا شکار ہے کہ جو میڈیا کی یک طرفہ کارروائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

میڈیا کے اس رویے نے نہ صرف انصاف کے پر نور چہرے کو داغ دارکیا ہے بلکہ صحافت کی تاریخ میں یک طرفہ رپوٹنگ کے سارے گذشتہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ میں ہرگز اس بات پر مضمر نہیں ہوں کہ جو ہوا وہ کسی طور بھی درست ہے مگر میں تو صرف معاشرے کی توجہ اس اہم نقطہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ وکلا کو سنے بغیر ان کو ملائن کرنا اور ڈاکٹرز کو انتہائی مظلوم طبقہ بنا کر پیش کرنا کسی طور بھی درست عمل نہیں۔

مجھے یہاں قرآن کی وہ مبارک آیت رہنمائی کیلیے یاد آ رہی ہے کہ جس میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ”فتنہ قتل سے بڑا جرم ہے”انگریزی میں ترجمہ ہے ”Fitnah is worse then killing“
کیونکہ قتل سے شاید کوئی ایک شخص یا خاندان متاثر ہوتا ہے تودوسری طرف فتنہ سے تو قوم، معاشرہ اور ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔اگر یہ اپنا رنگ دکھائے توفتنہ کے اثرات کو روکنا اس قدر مشکل ہو جاتا ہے کہ پھر اس کی آگ میں ایک گھر، دُکان،کاروبار یا شخص نہیں بلکہ جیسے میں نے ابھی ذکر کیا کہ اس کے اثرات ملک اور معاشرے تک کی جڑکو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔

یہ میرے الفاظ ہر گز نہیں یہ تو خدا کا فیصلہ ہے یہ تو اس رب کی رہنمائی ہے کہ جس کی ہر بات حکمت اور دانائی کا محور اور مرکز ہے۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں اس کی رہنمائی لی جائے تو معاشرہ کبھی انتشار اور افراتفری کا شکار نہیں ہو گا۔
 میں تو ابھی تک محو حیرت ہوں کہ اتنی سی آسان اور واضع قرآن کی دلیل کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ مسئلہ وہ نہیں ہے جس کو مسئلہ بنایا گیا ہے یا اس قدر بڑھا چڑ ھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

مسئلہ کا آغاز ڈاکٹرز کی طرف سے فتنہ پھلانے سے ہوا اور اس میں ابھی تک رہی سہی کسر میڈیا فتنہ پھلا کر پوری کر رہا ہے۔ اگر اس کے اثرات کو اسی وقت روک لیا جاتا جب اس کا آغار ہوا تھا تو صو رت حال یہ نہ ہوتی۔ میڈیا کو سٹوری، ڈاکٹر کو لیڈرشپ، سیاست دانوں کو کرسی اور عوام کو تماشا چاہیے۔ کسی بھی طبقے نے آگے بڑھ کر اپنا رول درست انداز میں ادا نہیں کیا۔

ہر طرف نمبر گیم ہے۔ہر کوئی نمبرز کے پیچھے بھاگ رہا ہے، کوئی لفافے کے نمبرکے چکر میں ہے تو کوئی پروگرام کی ریٹنگ کے نمبر کے گرد باولا ہوا جا رہا ہے۔ سب کا ہاتھ عقل و فہم سے ذرا تنگ ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کرسمس کی چھٹیاں منانے کسی دور افتاہ مقام پر گھاس چرنے جا چکی ہے۔ ان بے لگام ڈاکٹرز کو بھی لگام ڈالنے کی اشد ضرورت ہے کہ جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی پیداوار ہیں جو اپنے اصل فرائض سے کوسوں دور ہیں۔

انہیں کس نے یہ سکھایا ہے کہ کسی دوسرے عزت دار طبقے سے اس قدر نا روا سلوک روا رکھیں اور شر انگیز تقاریر کے ذریعے فتنہ پھلایا جائے۔ ان کا کام سیاست کرنے کی بجاے عوام کی خدمت ہے اسی کا حلف انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرتے ہوئے لیا تھا۔ مگر ان کا عمل اس کے برعکس ہے۔ 
دراصل ہمارا حافظہ بہت کمزور ہے ہم وہ قرب کے لمحات بھول چکے ہیں کہ جب اسی پی آئی سی میں لاکھوں کے سٹنٹ ایکسپائر ہو گئے تھے اور کئی مریض سٹنٹ وقت پر نہ ڈلنے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے تھے۔

نہ صرف یہ بلکہ کئی بچارے مریضوں کو ایکسپائر سٹنٹ ڈال دیے گئے ہوں گے جو کہ قیامت کو ہی رپورٹ ہوں گے۔ اور پھر ان مریضوں کا حساب بھی انہی کو قیامت کے دن دینا ہو گاجو ان کی بے جا ہڑتالوں کی وجہ سے من و مٹی تلے جا پہنچے اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث در، در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور رہے۔ میں پوچھتا ہوں اس میڈیا سے،ان ارباب اختیار سے کہ ان لاشوں کا حساب ان ینگ ڈاکٹرز سے کون لے گا؟ کیا انصاف صرف ایک طبقہ کے لیے ہے۔

کیا ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر وکلا کسی بھی طرح سے قصور وار ہیں تو ینگ ڈاکٹرز ان سے زیادہ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ آئندہ اگر کبھی کوئی وکلا گردی کی ٹرم استعمال کرے تو پھر ڈاکٹرز گردی کی ٹرم بھی استعمال ہونی چاہیے۔ گرفتار وکلا کو فوری رہا کرکے ان کے موقف کو سن کر معاشرے کے دونوں اہم طبقات میں افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرا نا چاہیے اور نئے مسائل کو نئے انداز سے حل کروانا چاہیے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :