حکومت،اپوزیشن اور عوامی مسائل

اتوار 26 جنوری 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

ملک اس وقت ستر سال کی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ایک طرف ایران اور امریکہ کشیدگی کی وجہ سے خطے میں امن استحکام اور سلامتی کا مسئلہ  در پیش ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی بڑ ھتی ہوئی جارحیت کی وجہ سے پاکستان اور جنو بی ایشیا پر اس کے گہرے اثرات مر تب ہو رہے ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ پا کستان کو خاص طور پر بے شمار دیگر چیلنجز کابھی سامنا ہے۔

ا ن سب مسا ئل اور چیلنجیز کے سا تھ نمٹنے کے لیے پا کستان کو جہاں انتہا ئی حکمت اور تد بر کی ضرورت ہے وہاں ان مسا ئل کو حل کرنے کے لیے با ہمی تعاون اور اتفاق راۓ کی اشد ضرورت ہے۔ ان پیچیدہ مسائل میں سب سے اہم مسلۂ آرمی ا یکٹ پر قانون سازی تھاکہ جس کو حل کرنے کے لیے حکومت کو اسمبلی میں سادہ اکثریت کی ضرورت تھی چو نکہ حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں سادہ اکثر یت موجود نہیں تھی اس لیے اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ حکومت اپوزیشن کو ا عتماد میں لے اور نا صرف قا نو نی بحران پر قابو پا ئے بلکہ بعد میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر ملک کو درپیش دیگر مسائل بھی حل کرۓ۔

(جاری ہے)

خدا کا شکر ہے کہ آرمی ایکٹ 2020 بحریہ ایکٹ 2020 پاک فضا ئیہ ایکٹ 2020 تو بڑی خوش ا سلو بی سے اسمبلی سے پاس ہو گئے۔
 مگر اس کے طر یقہ کارمیں انتہائی ُاجلت برتی گئی اس میں ایوان زیرٖی یعنی قومی اسمبلی سےایک دن میں اور ایوان بالا یعنی سینیٹ سے ایک گھنٹے سے بھی کم کے قلیل تر ین وقت میں تینوں قوا نین کو پا س کر لیا گیا۔ جو کہ ایک طرف تو اچھی بات ہے کہ ایک ا ہم قو می مسئلہ  نہا یت شا ئستگی اور شستگی کے سا تھ حل ہو گیا ۔

مگر دوسری طرف اس سارے معا ملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ان قوانین کو کیوں پاس کیا گیا سوال یہ ہے کہ اس قدر اجلت میں کیو ں پا س کیا گیا- اس قدر جلد بازی کی کیا ضرورت تھی ۔ بحر کیف اس پر ا تفا ق رائے کا ہونا تو کو ئی اچمبے کی بات نہیں ۔ مگرپھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس پر اسمبلی میں سیر حا صل گفتگو اور پھر مکمل بحث کے بعد ان کو قانون کا درجہ دیا جا نا چا ئیے تھا-اور اگر ہم اپنا جا ئزہ لیں تو در حقیقت ستر سال سے تو وہی بر طانوی قوانین ہمارے جو ڈ یشل سسٹم کا حصہ ہیں تو پھر ہمیں قا نو ن سازی بھی تو ان سے سیکھ لینی چا ئیے کیو نکہ بر طا نوی پارلیمنٹ میں قانون سازی کا ایک پیچیدہ طر یقہ کار ہونے کے باوجود بہت تیزی سے قوانین بنتے اور تبدیل ہوتے ہیں۔

 بر طا نیہ میں قا نون سازی کے لیے پہلے حکو متی کمیٹی بنا ئی جا تی ہے اور پھر وائٹ پیپر اور پھر مکمل بحث کے لیےگرین پیپر جاری کیا جا تا ہےاور اس طرح کسی بھی قانون کو اسمبلی میں کئی مہینوں کی بحث کے بعد منظور یا نا منظور کیا جا تا ہے۔ یہاں اس امر کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ برطا نوی اسمبلی میں بحث براۓ بحث کی بجائے حقاق اور تنقید برائے اصلاح کا عنصر غالب ہوتا ہے۔

کسی بھی قانون کو مکمل طور پر لاگو کرنے سے قبل اس کے نا فذ العمل ہو نے کی تاریخ بھی دی جاتی ہے اور صرف ان معا ملات کو ہی نئے قانون کے مطابق حل کیا جاتا ہے جو اس قانون کے نا فذ العمل ہونے کی تاریخ سے یا اس کے بعد در پیش آتے ہیں۔ کسی فرد واحد کے لیے قانون نہ تو بنا ئے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو ختم کیا جاتا ہے۔ 
ہاں اگر اس کا فا ئدہ قومی سطح پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ طر یقہ کار کو مختصر کر لیا جا ئے جیسا کہ پاکستان کی حالیہ صورت حال میں ہوا۔

مگر بہتر ہو تا کہ ان قو انین کو تسلی سے اسمبلی میں بحث کے بعد منظور کیا جا تا۔ یہ سب تو جلدی جلدی ہوگیا مگر کبھی جب عوامی مسائل یا ان کو سہو لیات پہنچا نے کے معا ملات در پیش ہو تے ہیں تو اسمبلی کے فلور پر عوام کے لیے نہ تو کسی بھی طرح کی حکومت اپوزیشن مفا ھمت ہو تی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی لچک کا مظا ہرہ کیا جاتا ہے۔
 بد قسمتی سے پاکستان میں ہمیشہ سے ہی عوامی مسا ئل کے حل نہ ہو نے کی بڑ ی وجہ حکومت اور اپوزیشن کی خام خواہ کی لڑائی اور ایک دوسرے پر بے جاہ تنقید رہی ہے جو کہ صرف اور صرف تب ہو تی ہے کہ جب عوامی مسا ئل کو حل کر نے کا معاملہ در پیش ہو تا ہے۔

اپوزیشن حکومت کی ہر جا ئز اور نا جا ئز بات کو تنقید کا نشانہ بنانا اپنا فر ض اولین سمجھتی ہے اور اسی طرح حکومت بھی گذ شتہ حکو متوں یعنی اپوزیشن کی گذ شتہ پالیسیوں کو ہمیشہ عوام کے سا منے انتہا ئی منفی انداز میں پیش کرتی ہے ۔ 
پاکستان میں ہر نئی حکومت ذ یا دہ تر سا بقہ حکو متوں کے مکمل یا جاری شدہ پروجیکٹس کو بند کرکے یا پھران کی فنڈ نگ ختم کر کے اسی طرح کے نئے پروجیکٹس معمو لی رد و بدل کے ساتھ کسی نئے نام سے شروع کر دیتی ہے صحت کارڈ سکیم وغیرہ بس یہی پا کستان کی سیا ست کا گذ شتہ ستر سال سے وتیرہ رہا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حکومت اپوزیشن کھینچا تا نی میں نا صرف ملک اور قوم کے وقت اور وسائل کی بر بادی ہوتی ہے بلکہ عوام کے مسائل اور ان کا حل بھی اسی عمل میں بڑی بے دردی سے پس پشت ڈال دیا جا تا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہماری جمہوریت کی نا صرف کم عمری ہے بلکہ اس میں سیا سی اخلا قیا ت کی عدم موجودگی اور سیا سی فہم و تد بر اور اس کی نا پختگی کا ہونا بھی اہم امرہے۔

اور شا ید بے حسی اور بے ضمیری بھی ہماری حکو متوں کا شا خسانہ ریا ہے۔ مگر میں ان سے پو چھتا ہوں کہ اس میں بے چارے عوام کا کیا قصور ہے؟ ان کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ آخر ان کے دکھوں کا مداوہ کون کرے گا؟ آخر ان کے زخموں پر مر ہم کون رکھے گا؟ اور ان سے کیے گئے وعدے کون پورے کرے گا ؟ ان کی آس اور امید پر کون کان دھرے گا؟ ان کی ز ندگیوں سے بھوک ، افلاس اور بے یقینی کے جن کو بوتل میں کون بند کرے گا؟ ان کو تو روٹی ، کپڑا اور مکان کا وعدر سنتے سنتے ستر سال گزر چکے ہیں ان کو تو اس غم کی اند ھیری رات میں روشنی کی کو ئی کرن نظر نہیں آ رہی۔

ان کو تو ظلم وستم کی چکی تلے پستے ایک زمانہ بیت چکا ہے۔ ان کا تو کوئی پر دسان حال نہ تھا اور نہ ہی ہے ۔ مجھے کیوں نکالا سے ووٹ کو عزت دو، لو ہے کے چنے اور پھر مجھے یہاں سے نکالو تک اور پھر بھٹو کے قتل سے لیکر آمر یت کے خلاف جنگ تک سب کچھ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اگر کچھ نہیں دیکھا تو بس عوام کو عزت دو اور ووٹر کی قدر کرو سے لے کر عوام کو بھی زندہ رہنے دوکا نعرہ نہیں سنا اور نہ ہی اس کا عملی مظا ہرہ کبھی دیکھنے میں آیا ۔

ہر سیا سی جماعت کی اپنی اپنئ لڑائیاں ہیں سب کے اپنے اپنے مقا صد ہیں عوام کو نہ تو گذ شتہ ادوار میں ا ہمیت دی گی اور نہ ہی مو جودہ دور میں دی جا رہی ہے۔ کاش کہ اس قدر جلد بازی عوام کی فلاح و بہبود کے معاملات پر کی جا تی، مہنگا ئی کے خاتمے کے لیے کی جاتی، تعلیم اور صحت کے مسا ئل کے حل کے لیے کی جاتی تو آج عوام اس قصم پرسی کی حالت میں نہ ہو تی۔ میری دعا ہے کہ اللہ حکومت اور اپوزیشن کےاتفا ق کو قائم رکھے اور ان کو عوامی مسا ئل کو بھی جلد بازی میں حل کرنے کی بھی تو فیق دے۔ امین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :