برطانیہ کا نظام تعلیم، پاکستان کیا کچھ سیکھ سکتا ہے‎

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

تعلیم اور تعلیمی نظام دونوں ہمیشہ سے ہی میرے محبوب ترین موضو عِ سخن رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ میرا بحثیتِ استاد ایک طویل ترین سفر ہے جو مجھے آج بھی لندن کی ایک اہم ترین یو نیورسٹی سے بحثیتِ استاد منسلک کیے ہوئے ہے۔ جب کبھی بھی تعلیمی ا نحطاط یا پھر اس کی بہتری کی بات ہوتی ہے تو میرے دل میں عجیب سی بے چینی اور قلم میں جنبش ہو نے لگتی ہے اور ہاتھ خود بہ خود لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

دلِ مضطرب خود بہ خود تجربات کی ز نبیل سے کچھ نہ کچھ نکال کر قوم کی خدمت میں پیش کرنے کو مچل اُٹھتا ہے۔
گزشتہ دنوں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک لمبی چوڑی مسائل کی فہرست میری نظر سے گزری جس میں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے بڑی درد مندی سے حکومت کی نظر ان مسائل اور مشکلات کی طرف مبذول کروائی گی تھی۔

(جاری ہے)

اس فہرست میں بہت سے مسائل زیر بحث تھے مگر ان میں سے چند نکات انتہائی اہم ہیں جن سے پاکستانی قوم کا مستقبل جڑا ہے۔

میری رائے میں حکومت کا ان مسائل کو جاننا، سمجھنا اور ان مسائل کو ٹھنڈے دل سے ُسننا اور ان کو حل کرنا جدید دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ان نکات میں سب سے پہلا نکتہ جس کا ذکر ضروری ہے وہ کچھ یوں تھا کہ حکومت نجی تعلیمی اداروں یعنی نجی سکولوں، نجی کالجوں اور بلخصوص نجی یو نیورسٹیوں کو تعلیمی پالیسی بنانے جیسے اہم مر حلے میں سرے سے ہی شامل نہیں کرتی اور نہ ہی ان کو کسی بھی مشاورت میں شریک کیا جاتا ہے۔

میرے نزدیک انتہاء درجے کی لا پرواہی اور حما قت ہے۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جس کا ذکر میں آگے چل کر ضرور کروں گا۔ مگر اس سے پہلے اتنا جان لیجئے کہ پا کستان کے علاوہ دنیا بھر میں حکومت کی طرف سے نجی تعلیمی اداروں کو مشاورت اور تعلیمی پالیسی بنانے جیسے اہم معا ملات میں شامل کیا جاتا ہے جس کا مقصد نجی تعلیمی اداروں کے اسا تذ ہ اور تعلیمی ماہرین کے تجربات اور ان کی گراں قدرعلمی خدمات سے فا ئدہ اُ ٹھانا اور ملک و قوم کے لیے ایک جامع پا لیسی ترتیب دینا ہوتا ہے۔

اور پھر اسی مرتب شدہ پالیسی کے ذریعے ملک و ملت کے بہترین مستقبل کے لیے اہداف طے اور حا صل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی آپ جس طرح کی قوم آج سے پانچ سال بعد دیکھنا چاہتے ہیں آپ اسی طرح کا نظام تعلیم نافذ کریں گے اور اسی طرح کے اہداف مقرر کریں گے۔
میں گذ شتہ پندرہ سال سے بحثیت اُستاد برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہونے اور اپنے تعلیمی ادارے کے مندوب کی حیثیت سے کئی مرتبہ حکومتِ برطا نیہ کی دعوت پر ان کے پالیسی بنانے والے اداروں کی کئی کا نفرنسز اور مباحثوں میں شریک ہو چکا ہوں، جن میں ڈیپارٹمنٹ آف ایجو کیشن، او ایف ایس، لیڈر شپ فاؤ نڈ یشن، ہائر ایجوکیشن اکیڈمی، ہوم آفس کا ایجوکیشن پرو نٹ ڈیپارٹمنٹ، یو کیس اور کیو اے اے جیسے ادارے شامل ہیں۔

ان تمام میٹنگز اور کانفرنسز میں ہمیشہ حکومت برطانیہ کی طرف سے سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کو بھی اہم سٹیک ہو لڈرز کی حیثیت سے مدعو کیا جاتاہے۔ یہاں تک کہ پالیسی بنانے سے ایک یا دو سال قبل ہی ان تمام تعلیمی اداروں کے نمائندوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کیا جا تا ہے اورایک یا دو سال کے طویل مدِتی ایجنڈے کے بعد جو پالیسی منظور کرنا مقصود ہو اس کے کئی مفروضے بنائے جاتے ہیں اور ان کو ان تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی رائے اور راہنمائی کے بعد قا نون کی روشنی میں منظور کیا جاتا ہے۔

اس کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ آنے والے نئے تعلیمی نظام کے بارے میں مکمل راہنمائی کا کتابچہ بھی جاری کیا جاتا ہے اور پھر ان تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے سٹاف کو ٹریننگ یعنی تر بیت کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ پورے ملک میں نا صرف یکسا ں نظامِ تعلیم قائم کیا جا سکے بلکہ تمام تعلیمی اداروں کو سالانہ رپور ٹنگ اور آڈٹ کے ذریعے قومی دھرے میں شامل کیا جا سکے۔

او ایف ایس جس کو آفس آف سٹوڈنٹس کہا جاتا ہے جو ڈ یپار ٹمنٹ آف ا یجوکیشن کے لیے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طا لب علموں کے حقوق کے لیے ان تعلیمی اداروں کی خاص مانیٹرنگ کرتا ہے اس کا کام تعلیمی معیار کو قائم رکھنا اور ان کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینا ہوتا ہے اور پھر کیو کیو اے یعنی کوالٹی ایشورس ایجنسی اپنے با لا ئی ادارے او ایف ایس کے لیے تعلیمی اداروں کا سالانہ آڈٹ کرتا ہے اور اس تعلیمی ادارے کی خوبیوں اور خامیوں کو پبلک کے لیے اپنی ویب سا ئٹ پر شائع کر دیتا ہے۔

ان سب حکومتی اداروں کا کام تعلیمی اداروں او ر طالب علموں کی مدد اور راہنمائی کرنا ہے۔ تاکہ وہ اس رپورٹ کے ذریعے تعلیمی اداروں کے معیار سے واقف ہو سکیں اور کالج یا یونیورسٹی کا انتخاب کرنے سے قبل ہی اس کے تعلیمی معیار کو جانچ سکیں۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر کا لجوں اور یو نیورسٹیوں کے تمام ایڈمشن یو کیس کے ادارے کے تحت کیے جاتے ہیں۔

یہ سب ادارے ڈ یپار ٹمنٹ آف ا یجوکیشن کو رپورٹ کرتے ہیں اور اس طرح پورے ملک کاتعلیمی نظام ایک مربوط نظام کے تحت کام کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ہر تعلیمی ادارہ نہ صرف حکومت کو جوابدہ ہے بلکہ خود کو پورے تعلیمی نظام کا اہم ترین جزو سمجھتا ہے۔ برطانوی طا لب علموں کو بیچلر ز، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی کے لیے غیر معینہ مدت تک تعلیمی قرضے بھی دئیے جاتے ہیں اور تب تک ان طالب علموں کو یہ قرضے واپس نہیں کرنے ہوتے جب تک ان کی تنخواہ اکیس ہزار پاونڈزسے تجاوز نہیں کرتی اور اکیس ہزار سے جتنی بھی زیادہ آمدن ہواس کا ما ہا نہ صرف نو فیصد بغیر سود کے وصول کیا جا تا ہے۔

اور دوسری طرف اسا تذہ کو بھی ایک سخت تر بیتی کورس کے ذریعے تعلیمی معیار سے روشناس کروایا جاتا ہے تاکہ ہر طالب علم کی تعلیمی ضروریات کو درست طور پر سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل کی راہ کا درست تعین کرکے ملک وقوم کا ایک روشن ستارہ بنایا جا سکے۔ اسی مربوط تعلیمی نظام کی وجہ سے لاکھوں طالب علم پوری دنیا سے تعلیم حاصل کرنے ہر سال برطانیہ آتے ہیں اور یہی اعلیٰ تعلیمی معیار برطانیہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔


آپ کو یہ سب سمجھانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ قومیں کس طرح کا میاب ہوتی ہیں۔ اس کے پیچھے کس درجہ کی ان تھک محنت اور کاوش ہوتی ہے اور یہ صرف تب ہی ممکن ہوتا ہے جب وہ اپنے ملک میں ایک مربوط معیاری تعلیمی نظام رائج کرنے میں کامیاب ہو جاتیں ہیں۔ کیونکہ کامیابی کا ز ینہ تعلیم سے شروع ہوتا ہے اور تعلیم پر ہی ختم ہوتا ہے۔

اب ذرا ا صل مو ضوع کی طرف آتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کی دوسری اہم گزارش یہ تھی کہ حکومتی ادارہ ایچ ای سی نئے ڈ یزائن کیے گئے کورسز کی منظوری دینے میں بہت سے حیلے بہانوں سے کام لیتا ہے اور ان کو ایک لمبا عر صہ تک نئے پروگرامز کی منظوری کے لیے انتظار کرنا پڑ تا ہے۔ اب اس کو سمجھنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اگر میں کہوں کہ مجھے ایک گلاس پانی کی شد ید پیاس ہے اور مجھے آپ پانی دو سال بعد لا کر دیں تو کیا مجھے آپ کے لائے ہوئے پا نی کی ضرورت اس وقت تک رہے گی؟ بس کچھ یہی کیفیت یہاں ہے۔

جن کورسز کو مکمل کرنے کے بعد متعلقہ شعبے کے ماہر ین کی مارکیٹ میں آج ضرورت ہے ان کورسزز کے ماہرین بننے کے بعد کمپنیاں ان کو نوکری دینا چا ہتی ہیں، اگر ان کورسز کو دو سال بعد حکومت سے منظور ی ملے گی اور اس سے پانچ سال بعد ماہرین تیار ہوں گے تو ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ اب اگر نجی تعلیمی ادارے ایک بڑی سرمایہ کاری کے بعد ملک و ملت کی خدمت سر انجام دینا چاہتے ہیں تو اس میں حکومت کو ان کے ساتھ تعاون کرکے ملک و ملت کا مستقبل بچانا ہو گا۔

میں در حقیقت سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں، طالب علموں اور تعلیم کی سرپرستی کا قا ئل ہوں اور موجودہ حالات میں نجی تعلیمی اداروں کو پاکستان کے لیے کسی حد تک نا گزیر سمجھتا ہوں۔اس کی چند اہم و جو ہات ہیں جن کا ذکر میں نے اسی تناظر میں کالم کے شروع میں کیا۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نجی تعلیمی ادارے پاکستان میں روزگار کے بہترین مواقع، معاشی بہتری میں تعاون، سرمایہ کاری میں اضافہ، پاکستان کے شعبہ جات میں ماہرین کا اضافہ، صنعت اور کاروباروں کو بہترین اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی کھیپ فراہم کرناسرکاری اداروں کے بعد انہی نجی اداروں کے تعاون کا شاخسانہ ہے۔


میں اس بات پر ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ سرکاری سطح پر مدد اور راہنمائی کے ذریعے سرکاری تعلیمی اداروں کو اوپر لیجانا اور ان کی اصل حالت میں بہتری لانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ملک میں جہاں طالب علم، تعلیمی ادارے اور اُساتذہ اس سارے تعلیمی نظام کے حصہ دار ہیں وہاں صنعتکار اور کاروباری طبقہ کو بھی اس نظام کا اہم ترین جزو ہونا چاہیئے۔

ان کو برطانیہ کی طرح تعلیمی اداروں کے ایڈوائزری پینل میں ہونا چاہیئے اور ان کی سفارشات کو نئے کورسز کو مرتب کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے تاکہ جب ان تعلیمی اداروں سے طالب علم فارغ ہو کر نکلیں اور نوکری کے لیے ان اداروں کا رُخ کریں تو صنعتکاروں اور کاروباری طبقہ کو ضرورت کے عین مطابق ملازم مل سکیں بالکل یہی کچھ برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں ہوتا ہے۔


ہر یو نیورسٹی کے ایڈوائزری بورڈ میں ملک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں جو یو نیو رسٹیوں کو گرانٹ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق کورسز مرتب کروانے کے لیے سفارشات بھی دیتے ہیں کیونکہ ان کو مارکیٹ کی ضرورت اور اصل حقا ئق کا سب سے بہتر معلوم ہوتاہے۔ اس گرانٹ سے بہت سے طالب علموں کو یہ مخصوص کورسز کرنے کے لیے سکالرشپ بھی دیا جاتا ہے۔ اور کورس کے مکمل ہوتے ہی وہ آسانی سے نوکری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ حکمران اپنی روائتی سُست روی اور لاپرواہی کو کچھ دن کی چھٹی عنایت فرما تے ہوئے میدان عمل میں اُتر کر نجی تعلیمی اداروں کے مسائل جلد سے جلد حل کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :