لاتوں کے بھوت۔۔۔‎

ہفتہ 10 اپریل 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم پاکستان کے موقعہ پر پاکستانی عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے خیر سگالی کے پیغامات بھیجے ہیں ۔ مگر بات یہاں ہی نہیں رُکتی بلکہ بھارتی صدر اور وزیراعظم پاکستان کا دورہ تک کرنے کو تیار ہیں ۔ حکومتی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ یکا یک ہونا تو بظاہر ایک حیران کن بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ ہندوستان جو پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا، فرانس سے رافیل کی خرید کر اسرائیل سے جنگی مشقیں کرنے میں مصروف تھا ،کلبھوشن اور ابھی نندن کے ذریعے پاکستان میں گھس کر مارنے کی بات کرتا تھا، جس نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں کا بھی جینا حرام کر دیا ہے، جس کی سکیورٹی ایجنسی ''را''  کے کشمیر پر ڈیڈ لاک اور کراچی و بلوچستان میں دہشت گردی کے تانے بانے ملتے ہیں، جس نے پاکستان کے مشرقی آبی ذخائر پر قبضہ جما کر سندھ طاس معاہدہ کی دھجیاں بکھیر تے ہوئے دریائے سندھ، جہلم اور چناب پرلوئی کلنا ئیک پروجیکٹ کے تحت اب تک 51 ڈیم تعمیر کر لیے ہیں اور آنے والے چند سالوں میں40 سے 55 ڈیم مزید تعمیر کرنے جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

اسی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد بھارت پاکستان کو عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیتا تھا۔ وہ بھارت آج ایسا کیا ہوا کہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہو چکا ہے۔
درحقیقت پاکستان نے وہ حکمت عملی اپنائی ہے کہ جس کا ہندوستان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اب ہندوستان اُس دوراہے پر آ کھڑا ہے کہ اُس کے پاس پاکستان کے قدموں میں گرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کیونکہ سیاسی منظر نامے کے ساتھ ساتھ جغرافیہ بھی تبدیل ہو نے جا رہا ہے۔

چین آہستہ آہستہ بھارت سے اپنے (متنازعہ)تمام علاقے واپس لینے کے ساتھ ساتھ بھارت کے آبی وسائل کو اُسی حکمت عملی سے کنٹرول کرنے جا رہا ہے جس چلاکی و مکاری سے اُس نے پاکستان کے آبی وسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے سینکڑوں ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو سبق سکھانے کا خواب سوچا تھا جو مکمل طور پرچکنا چور ہوتا دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ خواب تو پھر خواب ہوتے ہیں ان کو سچ کر دیکھانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کے علاوہ بہترین ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جو پاکستان و چین کے پاس با اُتم موجود ہے۔


اس وقت دنیا بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان اور چین بھارت کے معاملے میں ایک ہی سیاسی بساط پر کھیل رہے ہیں اس لیے چین بھارت کے حوالے سے اپنی نئی منصوبہ بندی پر کافی عرصے سے کام شروع کر چکا ہے۔ چین نے تبت سے نکلنے والے دو دریا گنگا اور برہم پتر کے پانیوں کا رُخ سُپر ڈیم بنا کر موڑنا شروع کر دیا ہے ۔بھارتی اخبار ''ہندو ٹائمز'' اور ''دی پرنٹ'' کے مطابق چین گنگا اور برہم پتردریاؤں پر 1200 کلو میڑ کا ایک راستہ ٹنل کی صورت میں تعمیر کر رہا ہے جس کے ذریعے گنگا و برہم پتر کا پانی چین کے ریگستانی علاقے یینگ ینگ میں جمع کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی چین کے دوسرے بڑے صحراتکلیمکن بھی کو اس پروجیکٹ کا حصہ بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔

چینی صحراؤں میں پانی کے ذخیرہ ہونے کی وجہ سے بھارت اپنے ان علاقوں کے لیے مستقبل قریب میں45  فیصد تک پانی سے محروم ہو سکتا ہے۔ برہم پتر 680 کیوبک فٹ فی سیکنڈ کے حساب سے پانی بھارت کو مہیا کرتا ہے جس میں کمی بھارت کے علاوہ بنگلادیش اور نپال کو متاثر کر سکتی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اب چین سے مار کھا کھا کر بھارت اپنی حرکات پر نظرثانی کرنے کے ساتھ ساتھ آبی معاملات سمیت دیگر مسائل پر بھی پاکستان سے بات کرنے کے لیے تیار ہے۔

کچھ ماہ قبل پاک بھارت بارڈرز پر ہونے والا امن معاہدہ بھی اسی سلسلے کا شاخسانہ ہے۔ اور اِسی امن معاہدے کے موقعہ پر بھارتی برّی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نرونے کا ''ٹائمز ناو'' کو دیا گیا ایک بیان سامنے آیا ، جس میں منوج کا کہنا تھا کہ اگر کسی چیز کے نتائج نہیں مل رہے تو ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی کام یا حکمت عملی بار بار دہراتے رہیں اور مختلف نتائج کی توقع کریں۔

منوج کا یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اپنی ظالمانہ حکمت عملی کو تسلیم کر چکا ہے جو پاکستان کے لیے خوش کُن بات ہے۔
دراصل ہونا تو یہ چاہیے کہ انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کے پیش نظر پانی کے معاملات میں ایک ملک دوسرے کو مشکلات کا شکار نہ کرے کیونکہ پانی ذخیرہ کرنے سے غریب کسان تو مسائل کا شکار ہوتے ہیں مگر اُن کے ساتھ ساتھ سیلابوں سے بہت سے دیہات بھی ہر سال زیر آب آجاتے ہیں جس کا نقصان خطے میں موجود تمام ممالک کی معیشت کو ہوتا ہے۔

مگر بھارت جیسے ملک کو انسانی حقوق کی زبان سمجھانا قدرے مشکل ہے ۔
بھارت 1948ء سے لے کر آج تک اپنی عادتوں کو تبدیل نہیں کر سکا مگر مودی کے خیرسگالی پیغام اور پاکستان و بھارتی سرحد پہ ہونے والے اس امن معاہدے کے اثرات خطے پہ کیا ہونگے اس کا پتہ تو مستقبل میں چلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :