آجکل ایک خبر کا بہت واویلا ہے وہ یہ کہ افغان طالبان عیدالفطر کے بعد انڈیا میں جہاد کا اعلان کر چکے ہیں۔غزوہ ہند کا آغاز ہونے والا ہے۔ بہت سے نادان دوست اور صحافی خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں اور انڈیا کو تباہ ہوتا دیکھنے اور فتح کا جشن منانے کے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں۔انڈیا ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہماری یہی خواہش بھی ہو گی جو ہم اِس وقت یہ چاہ رہے ہیں لیکن ہمیں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے حقائق کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے کیونکہ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور ہے آپ کا دشمن ایسی جھوٹی اور بے بنیاد خبریں پھیلا کر اپنے عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔
وہ نہیں چاہے گا کہ آپ کے ملک میں امن ہو آپ ترقی کریں۔وہ ایسی خبریں پھیلا کر آپ کے ذہنوں میں ایسی باتیں ڈال کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کرے گا۔
(جاری ہے)
آخر یہ خبر ہے کیا اِس کے کیا حقائق ہیں اور اِن حالات میں ہی یہ خبر کیوں پھیلائی گئی جب افغان طالبان امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کر رہے ہیں اور افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔
یقیناً افغان طالبان افغانستان میں اپنی حکومت بنانے کے لئے راہ ہموار کرینگے۔کیونکہ افغانستان کی سرزمین سے انہی افغان طالبان نے دو سپر پاورز کو شکست فاش دی۔اور ناکوں چنے چبوائے۔بہت سے دوستوں اور نام نہاد تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ افغان طالبان اب انڈیا کو اپنا مسکن بنائینگے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑینگے اور اِس سارے عمل میں پاک فوج افغان طالبان کا ساتھ دے گی۔
جس کی بدولت وہ عیدالفطر کے بعد جہاد کا اعلان کر چکے ہیں۔اِن حقائق کے پسِ پردہ انڈیا اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے اور وہ چاہے گا کہ وہ اِس شوشے کے پیچھے چھپ کر اپنے اصل عزائم میں کامیاب ہو اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے۔
یہ وہی انڈیا ہے جس نے افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیاں کیں، لاکھوں شہریوں کو شہید کروایا۔
پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا گیا۔طالبان دھڑوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں اپنے مقاصد کو کامیاب کروایا۔بلوچستان میں بلوچ رہنماوں کے ساتھ مل کر گریٹر بلوچستان کا نعرہ لگایا۔افغانستان میں امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔اور افغان طالبان کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لیکن جب انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات آئی تو امریکہ نے منہ تک نہیں لگایا اور اِس سارے عمل سے انڈیا کو دور رکھا اور پاکستان کی شرکت یقینی بنائی۔
انڈیا کو امریکہ کا یہ رویہ ناگوار گزرا اور یہ سارے شکوے شکایتیں لے کر امریکہ کے سامنے رکھ دیں۔ امریکہ نے ہری جھنڈی دکھا دی کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ خود سے امن مذاکرات کر سکتا ہے.انڈیا کو یہ بات ناگوار گزری اور اب وہ اِس تاریخی بے عزتی کا بدلہ چکانے کے درپے ہے۔اور کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ شوشہ چھوڑنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ اِس سارے عمل میں ایک بار پھر پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو بدنام کیا جائے اور اپنی اہمیت کا ادراک کروایا جا سکے۔
ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی مرضی کے بغیر افغان طالبان انڈیا میں کسی بھی قسم کا جہاد شروع کر سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کے ساتھ انڈیا کی کوئی سرحد نہیں ملتی اور یقیناً اگر ایسا ہوا بھی (جو کہ نہیں ہو گا) تو افغان طالبان کو انڈیا تک پہنچنے کے لئے پاکستان کے راستے ہی استعمال کرنا پڑینگے۔ اگرچہ پاکستان ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا کیونکہ ایسا کرنا ایک اور نئی جنگ کو دعوت دینا ہے اور ایسا اگر پاکستان کی طرف سے کیا گیا تو اِس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
امریکہ اور مغربی طاقتیں افغان طالبان کو پسند نہیں کر تیں اور اگر افغان طالبان کی طرف سے ایسا کوئی ردِ عمل آتا ہے تو یقیناً امریکہ اور اتحادیوں کو ایک بار پھر چڑھائی کا موقع ملے گا۔یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ افغان طالبان افغانستان کی ایک طاقت ضرور ہیں اور وہ ایک بار پھر سے اِن کوششوں میں مصروف ہیں کہ حکومت اُن کے حوالے کی جائے۔
اِسی لئے اُس وقت تک طالبان کبھی بھی ایسا بڑا قدم نہیں اُٹھائینگے کہ غزوہ ہند کا اعلان کریں۔اِس لئے افغان طالبان کی طرف سے ایسا بلکل نہیں کہا گیا جیسا اُن کے بارے پھیلایا جا رہا ہے اور پاکستان کے اداروں کو اِس سارے معاملے میں ملوث ٹھہرایا جا رہا ہے۔یقیناً یہ دشمن کا ہی پیدا کیا ہوا وہ کھیل ہے جس میں ہم انڈیا کو بھرپور معاونت کے ساتھ اِن مقاصد میں کامیاب ہونے کے لئے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔
یہ تو حقیقت اٹل ہے کہ غزوہ ہند ہو کر رہے گا اور جب ہوا ہم سب انشاء اللہ اپنے ایمان کی طاقت سے لڑینگے لیکن اب ایسا بلکل بھی نہیں جس طریقے سے یہ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اگر ہماری طرف سے ایسی خبروں کو سچ ماننے کا یہ سلسلہ مزید جاری رکھا گیا تو ہمیں احمق ہی تصور کیا جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔