"کپتان کے دو سال اور ہم سب"

پیر 24 اگست 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

موجودہ حکومت کو پورے دو سال مکمل ہو چکے ہیں اِن دو سالوں میں اگر حقیقی معنوں ميں دیکھا جائے تو پاکستان تقریباً ہر میدان میں بہت پیچھے جا چکا ہے اِس بات سے انکار کرنا حقیقت سے انکار کرنا ہے ۔ پاکستان کا ہر شعبہء زندگی تقریباً موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے متاثر ہوا ہے ۔معیشت سے لے کر صحافت تک اور انفراسٹرکچر سے لے کر ملازمت تک ہر چیز بحرانوں کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔

الیکشن سے پہلے کے کپتان کے وعدوں اور دعووں کو اُٹھا کر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہو گا کہ کپتان کی حکومت پاکستان کی تقدیر بدل ڈالے گی(یہاں کپتان سے مراد عمران خان صاحب ہیں) لیکن دو سال گزرنے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ کپتان کی حکومت کس سمت پر کھڑی ہے ۔اِن دو سالوں میں مہنگائی کا طوفان بےقابو رہا۔

(جاری ہے)

روزمرہ کی اشیاء عوام الناس کی پہنچ سے دور ہوتی چلی گئیں آپ اندازہ کریں کہ چینی کی فی کلو قیمت 100 روپے تک پہنچ چکی ہے ۔

چینی بحران آیا اُس پر رپورٹ بنائی گئی بجائے اُس کا حل نکالنے کے عوام کو اِس حوالے سے ریلیف دینے کے چینی مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی گئی اور آج چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ باقی روزمرہ استعمال کی اشیاء کا بھی یہی حال ہے ۔اگر انفراسٹرکچر کی بات کی جائے تو پاکستان کا انفراسٹرکچر تقریباً تباہ ہو چکا ہے ۔کئی ہائی ویز ,شہروں اور دیہی علاقوں کو ملاتی شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اُن کی مرمت کے لئے حکومت کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی زیادہ فنڈز تاکہ اِن کی مرمت کر سکے ۔

اِس حوالے سے تو موجودہ حکومت کے اِن دو سالوں کا پچھلے دورِ حکومت سے تو بلکل ہی موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پچھلے دورِ حکومت کے پانچ سالوں میں انفراسٹرکچر پر بےپناہ کام ہوا جس کی بدولت کپتان صاحب جلسے جلوسوں میں یہ بات کرتے نظر آئے کہ قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں بلکہ تعلیم اور صحت پر فوقیت دینے کی ضرورت ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے نہ زیادہ سڑکیں بنائیں اور نہ ہی تعلیم اور صحت کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کیے۔

موجودہ حکومت کے اِن دو سالوں میں ترقی کی شرح تاریخ کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے  ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی منفی کی سطح سے بھی نیچے آ چکی ہے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے ملک کی بیوروکریسی پر نیب کے پہرے ہیں ۔اِس ڈر کی وجہ سے بہت سے بیوروکریٹس نے اپنی ذمہ داریوں سے بھی راہِ فرار اختیار کر لی ہے کیونکہ یہ لوگ دیکھ چکے ہیں کہ نیب کا ارادہ کس طرح حکومتی خواہشات کی تکمیل کر رہا ہے اور سلیکٹڈ احتساب کی بدولت بہت سے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی ساکھ کو بھی شدید متاثر کر چکا ہے۔

یہاں بات صرف بیوروکریٹ کی نہیں بلکہ بہت سے ممبر صوبائی و قومی اسمبلی جن کا تعلق اپوزیشن کی جماعتوں سے تھا وہ بھی نیب گردی کا نشانہ بنے اور نیب کی سرپرستی موجودہ حکومت کرتی رہی۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی ایک ایک کر کے رہا ہو چکے ہیں اور حکومت اِن سے ایک دھیلا تک نہیں نکلوا سکی۔ تو یہ بات بھی واضح ہو چکی کہ حکومت کا احتساب کا نعرہ بھی بری طرح فلاپ ہو چکا ہے جو اِن دو سالوں میں حکومت کا اپوزیشن کو خاموش کرانے کا مؤثر ہتھیار رہا ہے ۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔حکومت نے  کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا جو وفا تو نہ ہوا لیکن یہ ضرور ہوا کہ حکومت کی اپنی رپورٹس کے مطابق لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں ۔اِس حوالے سے اعدادو شمار بہت افسوسناک ہیں کیونکہ پاکستان کی معیشت تاریخ کے بدترین حالات سے گزر رہی ہے اور حکومت کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ روزگار کے نئے مواقع فراہم کر سکے۔

کچھ عرصہ قبل کپتان صاحب نے سرکاری نوکریوں کے حوالے سے بیان دیا تھا وہی بیان اِس حوالے سے اِن کے مستقبل کے فیصلے کو عیاں کرتا ہے کہ کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ یہ کہاں تک وفا کرینگے ۔اِن دو سالوں میں اگر کپتان صاحب نے کوئی اچھے کام کیے یقیناً کیے بھی ہیں تو عوام کی اُن میں ہرگز دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ وہ اچھے کام یا تو عوام کی پہنچ سے دور ہیں یا اُن کا عام آدمی کو براہِ راست فائدہ نہیں ہوا.. عوام کو بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صحت اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء سے واسطہ پڑتا ہے یہ تمام چیزیں یا تو موجودہ حکومت میں مہنگی ہو چکی ہیں یا پھر اِن اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں جو کپتان صاحب کی ترجیحات میں شامل ہونے چاہیئں تھے۔


اِن دو سالوں میں عوام نے کئی اشیاء کے بحرانوں سے بھی پنجہ آزمائی کی۔چاہے وہ چینی کا بحران ہو، توانائی کا بحران ہو، آٹے کا بحران ہو، پٹرول کا بحران ہو یا پھر ادویات کا بحران ۔اِن دو سالوں کی کارکردگی اِن بحرانوں کے گرد ہی گھومتی ہے تو یہ سب ہونے کے بعد بھی ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ اِن دو سالوں کی حکومتی کارکردگی تسلی بخش رہی ہے.اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دو سال پاکستان کی عوام پر کافی بھاری رہے ہیں۔

کپتان کے دو سال اُن کے وعدوں اور دعووں کے برعکس ہی گزرے لیکن ابھی تین سال باقی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان اپنی اننگز کس طرح کھیلتے ہیں ۔کیونکہ یہ سیاسی گراؤنڈ پر کارکردگی دکھانے کا وقت ہے اگر کپتان اِسی طرح اپنی اننگز کھیلتے رہے اور کارکردگی نہ دکھا سکے تو پاکستان کی عوام اپنا کپتان بدلنے کا اختیار رکھتی ہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :