"یہ کیسی جدوجہد ہے؟"

جمعہ 4 ستمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

حقیقی معنوں میں جدوجہد اُس چیز کا نام ہے جس میں ہم دن رات اپنے مقاصد کو حاصل کرنے یا معاشرے کی بہتری کے لئے کوئی کارنامہ سرانجام دیں۔بہت سے افسانوی کرداروں میں جدوجہد کو حقیقت سے الگ ہی بتایا جاتا ہے ۔ہماری ہاں یہ بات بہت حد تک پائی جاتی ہے کہ عمران خان صاحب نے سیاست میں بائیس سال تک جدوجہد کی جس کے بعد وہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے ۔

لیکن یہ جدوجہد افسانہ نگاروں نےاپنے اپنے خیالات کے مطابق تو لکھی ہے جس میں خان صاحب کی کچھ قربانیوں اور کامیابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہی ہے۔میں نے اُن تمام حقائق کو سامنے رکھ کر عمران خان صاحب کی سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالی ہے۔ اگر ہم حقیقت میں اِس بات کو دیکھیں تو ہمیں واضح پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں بہت سے سیاست دانوں نے قربانیاں دیں، حقیقی معنوں میں جدوجہد بھی کی لیکن وہ سیاست میں اِس حد تک نہیں پہنچ سکے کہ وہ وزیراعظم بن سکیں کئی سیاستدانوں نے لاٹھیاں کھائیں یہاں تک کہ جیلیں بھگتیں، آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا اُن کے سامنے چٹان بھی بنے رہے لیکن یہ سب ہونے کے باوجود وہ وزیراعظم نہ بن سکے۔

(جاری ہے)


عمران خان صاحب کی جماعت پاکستان تحریک انصاف جب 1996میں معرضِ وجود میں آئی تو اِس کا سب سے بڑا مقصد لوگوں کو انصاف مہیا کرنا اور اِس حوالے سے جدوجہد کرنا تھا لیکن جب پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو خان صاحب اور اُن کی جماعت پرویز مشرف کے کروائے گئے ریفرینڈم میں اُن کے ساتھ تھی ۔پھر وہی پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے تو اُن کے دور میں بےپناہ ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا ملی اور پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن عمران خان صاحب کبھی بھی دو لفظوں کی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ سکے بلکہ سب جاننے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکے تو مشرف کے اقتدار کے سالوں میں تو تحریک انصاف یا عمران خان خود کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہ سکیں کہ عمران خان صاحب نے پاکستان کی عوام کی بہتری اور اُن کے حقوق کے لئے جدوجہد کی یا مشرف مارشل لاء کو ختم کرنے کے لئے کوئی کردار ادا کیا ہو۔

جب پرویز مشرف نے پاکستان میں عدلیہ پر پابندیاں لگائیں، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کیا تو اُس وقت بھی میاں نواز شریف عدلیہ بحالی تحریک میں ہراول دستے کے طور پر سب سے نمایاں تھے لیکن عمران خان صاحب اُس وقت بھی دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہے تھے بلکہ چند مقامات پر ہی اُن کا وجود سامنے آیا لیکن حقیقی معنوں میں وہ اِس تحریک میں پیش پیش نہیں تھے ۔

جب 2008 میں ملک بھر میں عام انتخابات کرائے گئے تو عمران خان اور اُن کی جماعت نے الیکشن کا بائکاٹ کر دیا جس کے بعد انہوں نے کچھ سالوں تک تو بیان بازی کرنے کی سیاست پر ہی اتفا کیا لیکن 2011 میں وہ لاہور کے مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں نمایاں ہوئے ۔اُس کے بعد عمران خان اور اُن کی جماعت کا کردار پہلے کی نسبت کسی حد تک بڑھا جس کی بدولت اُنھوں نے 2013 کے الیکشن می قومی اسمبلی کی 33 سیٹیں بھی جیتیں ۔

یہ جیتنے والے سب وہ لوگ تھے جنھوں نے باقی پارٹیوں سے اُڑان بھر کر تحریک انصاف پر اپنا نیا آشیانہ بنایا اور پھر کامیاب ہوئے ۔اِن سالوں میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف پاکستان کی تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری لیکن حقیقی جدوجہد کا پہلو کہیں نظر نہیں آیا بلکہ عمران خان نے اُس وقت کی نوازشریف حکومت کے خلاف محاذ گرم رکھا اور دھرنے بھی اِسی دور میں ہی ہوئے جب عمران خان نے بجائے عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے عوام کو حکومت کے خلاف اُکسانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔

اِس دوران بھی عمران خان صاحب پاکستان کے کسی حلقے سے ایسا شخص نہیں تیار کر سکے جو آنے والے الیکشن میں پارٹی کی بنیاد پر کھڑا ہو اور الیکشن جیت سکے۔یعنی کے یہ کیسی جدوجہد ہے کہ جس سے نہ تو آپ عوام میں سیاسی شعور بیدار کر سکے اور نہ ہی ایسا شخص سامنے لا سکے جو آپ کی پارٹی کا نام لے کر کھڑا ہو اور الیکشن جیت سکے۔2018 کے الیکشن میں آپ نے باقی پارٹیوں کے اراکین کو اکٹھا کیا اور اپنی پارٹی کے ٹکٹ دیے اور وہی لوگ آپ کی پارٹی سے بھی جیتے جو باقی پارٹیوں کے ٹکٹس پر بھی سالوں سے جیتتے آ رہے تھے تو یہاں سوچنے والی بات ہے کہ کیسی جدوجہد جس سے آپ ایسا سیاستدان تیار نہیں کر سکے جو آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر ملک کے کسی بھی حصے سے بغیر شخصیتی پہچان کے جیت سکے۔

خان صاحب آپ کی کیسی جدوجہد جس میں آپ وہ قوم خاص طور پر اپنے سپورٹرز تیار نہیں کر سکے جو شخصیت سے ہٹ کر نظریے کو ووٹ دیں ۔کئی تجزیہ نگار تو اِس بات پر بھی قائم ہیں اور ثبوتوں کے ساتھ اِس بات کو لکھتے ہیں یا بولتے ہیں کہ آپ طاقتور حلقوں کی منشاء کے مطابق وزیراعظم بنے ۔آپ کبھی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے جب تک طاقتور حلقے یہ نہ چاہتے کہ آپ وزیراعظم بن جائیں ۔

اِس لیے خان صاحب آپ اور آپ کے چاہنے والوں سے یہ پوچھنا حق بجانب ہے کہ یہ کیسی جدوجہد جس میں آپ خود عوام کی سپورٹ کے ساتھ اقتدار یعنی وزیراعظم نہ بن سکیں آپ کو وزیراعظم بننے کیلئے بھی اِن اداروں کا ہی سہارا لینا پڑا ۔اِس لیے اِس بات کو بغیر کسی دلیل کے کہنا کہ عمران خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے لئے بائیس سال سیاسی جدوجہد کی ہے تو یہ جدوجہد ہم سب کے سامنے ہے ۔اِس لیے ہم میں سے وہ لوگ جو عمران خان صاحب کے سپورٹرز ہیں وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر کو یہ نہیں کہ سکتے کہ اُس کی سیاسی جدوجہد کیا ہے جو وہ وزیراعظم بننے کے لئے اہل ہیں تو یہ بات کرنے سے پہلے ہمیں خان صاحب کی سیاسی جدوجہد کو ضرور دیکھنا چاہئے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :