مودی اور کشمیر کی حقیقت

پیر 4 جنوری 2021

Sohail Salam

سہیل سلام

پاکستان میں بے مقصدسیاسی کھینچا تانی اورلا حاصل بیانات میں مقبوضہکشمیر پر بھارت کے تسلط کے خلاف جدوجہد آزادی کی خبریں کہیں گم ہو گئیں ہیں۔ بس لائن آف کنٹرول پر پاکستای فوجیوں کی شہادتوں اور شہیدوں کے جنازے ان کے آبائی علاقوں میں لائے جانے کی خبریں نشر ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک آزادی نے بھارت کے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔

مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A یکطرفہ طور پر منسوخ کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم تو کر دی لیکنکشمیری مسلمانوں کی طویل تحریک آزادی ایسے اقدامات کرنے اور اسرائیلیوں کی مدد لینے سے ختم نہیں ہو جائیگی۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ہمیشہ ہندوستان سے علیحدہ آ ٓزاد اور خود مختار ریاست رہا ہے آج وہاں جو حالات ہیں وہ وہاں رونما ہونے والے تاریخی واقعات کے تسلسل کا نتیجہ ہیں۔

(جاری ہے)

شمس الدین شاہ میر خاندان کا دور1561  تک جاری رہا۔ اسی دور میں اسلام کشمیر میں پھیلا۔ اسی دور میں نورالدین نورانی  جن کا مزار چرار شریف میں ہے نے کشمیریوں کو اسلام کے پیغام سے فیضیاب کیا۔اسی دوع میں وسط ایشائی ریاستوں سے تجارتی قافلے یہاں آتے تھے جنہوں نے اپنی ثقافت سے کشمیری سماج کومتاثر کیا۔صوفی بزرگ شاہ ہمدان علی جب کشمیر میں آکر آباد ہوئے تو یہاں سماج اسلامی سانچے میں ڈھل گیا۔

جموں کشمیر پر 1585 سے 1751 تک مغلوں کا راج رہااور پھر افغانیوں نے 1747 میں اپنی حکومت قائم کرلی جو 1819 تک قائم رہی۔ 1819 سے1846 تک یہاں راجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت قائم رہی اور تقریباً پانچ سو سال بعد کشمیر پہلی بار غیر مسلم سلطنت کا حصہ بنا۔ راجہ رنجیت سنگھ نے ہی جموں کے ڈوگرہ گلاب سنگھ کو کشمیر کا خود مختار حاکم مقرر کیا۔ اسی دور میں لداخ اور گلگت کو ریاست کشمیر کا حصہ بنایا گیا تھا۔

تاہم 1841 میں چینی سپاہیوں نے جنرل زورآور سنگھ وار اس کے چار ہزار سپاہیوں کا صفایا کیا۔ 1842 میں چینی شہنشاہ لائی لامہ اور گلاب سنگھ کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں یہ طے کیا گیا کہ لداخ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں قدیم زمانے میں طے ہونے والی سرحدوں میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا اور پرانی روایات کے مطابق لداخ کے راستے سے سالانہ تجارت کے اجازت دے گا۔

راجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد جب سکھ سلطنت زوال کا شکار ہوئی تو گلاب سنگھ نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے تعلقات استوار کیے اور اینگلو برٹش جنگوں سے خود کو دور رکھااور 1846 کے امرتسرمعاہدے کے تحت اس نے کچھ لاکھ نانک شاہی روہے کے عوض جموں و کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان کا علاقہ خرید لیا جو سکھ سلطنت کا حصہ تھے۔ یہ اتنی ہی رقم تھی جو برطانوی فوجی مہم پر خرچ ہوئی تھی۔

ڈوگرہ راج جموں و کشمیر پر 1947 تک قائم رہا۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ یہ ریاست خود مختار تھی۔ علاقہ میں ڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک کا آغاز  1925 سے اس وقت ہوا جب ہندو راجہ ہری سنگھ 77  فیصد مسلما ن آبادی کا راجہ بنا اور تقریباً آٹھ سال بعد ہی نوجوان رہنما شیخ محمد عبداللہ کشمیر کے سیاسی افق پر ابھرے۔ 1947 کے فسادات کے اثرات جب جموں و کشمیر تک پہنچے تو بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور زیادہ تر مسلمانوں کو پاکستان کی جانب دھکیل دیا گیا۔

راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے ملنے کا فیصلہ کر کے بھارتی فوج کی مقبوضہ جموں کشمیر میں آنے کا راستہ ہموار کیا لیکن نہرو نے اسے اقتدار سے علیحدہ کیا اور نہ ہی شیخ محمد سے کیے گئے وعدے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو خودمختاری دی۔ پاکستانی فوج اور قبائلیوں نے آزاد کشمیر کو بھارتی شکنجے سے بچایا جبکہ گلگت بلتستان کے اسکاؤٹس نے راجہ ہری سنگھ کا اقتدار ختم کر کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔

جموں و کشمیر اور لداخ کی تارؤیخ بتاتی ہے کہ معاملات اس طرح طے نہیں ہوسکتے جس طرح بھارتی انتہا پسند حکمران چاہتے ہیں لداخ میں چین کی سرحد بالآخر ہزاروں برس کے تاریخی تناظر میں ہی طے ہوگی اور بھارتی فوج کو جنرل زورآور سنگھ کی فوج جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جموں مٰں مسلم آبادی کا تناسب کم ہوچکا ہے لیکن مقبوضہ وادی میں تحریک آزادی کو کچلا نہیں جا سکتاب اوجود اس کے کہ بھارت ہر طرح سے انکی آواز دبانا چاہتا ہے۔

مقبوضہ وادی میں ڈسٹرکٹ ڈویلیپمنٹ کونسل کے حالیہ انتخابات میں چھ جماعتی اتحاد میں نیشنل کانفرنس کو سب سے زیادہ 56 نشستیں ملیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے آرٹیکل 370 اور 35A کی تنسیخ کے فیصلے، غیر قانونی حراستوں، انٹیلی جنس اداروں کی دھمکیوں اور دباؤ کو مسترد کردیا ہے اور اپنے امیدواروں کو جتوایا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :