
پاکستان میں موجودہ ٹیکس کا نظام
ہفتہ 13 فروری 2021

سید عباس انور
(جاری ہے)
اب یہ دونوں ساتھی نوکر آدھا دودھ تو خود لے جاتے اور آدھے دودھ میں آدھا پانی ملا کر مالک کو دے دیتے۔
چند روز بعد پھر کسی خیر خواہ نے چودھری کو شکایت لگائی کہ یہ دونوں نو کر آپ کو الو بنا رہے ہیں اور دودھ چوری کررہے ہیں۔ چودھری نے دوبارہ ایک اور نوکر رکھ لیا کہ وہ ان دونوں کی نگرانی کرے کہ یہ دونوں اس واردات میں کس حد تک ملوث ہیں۔ اس تیسرے نوکر کو بھی ان پہلے والے دو نوکروں نے اپنے ساتھ ملا لیااور دودھ کا ایک حصہ اسے بھی دے دیتے اور باقی ایک حصہ میں تین حصے پانی ملا کر چودھری کے حوالے کر دیتے اور سب اچھا کی رپورٹ دیتے۔اب تو جاگیردار کے دوست احباب نے جاگیردار کو بھی کہنا شروع کر دیا کہ آجکل آپ دن بدن کمزور ہوتے جا رہے ہیں، کچھ کھانے پینے کو نہیں ملتا کیا؟ اسے کیا پتہ کہ جس دودھ کو وہ خالص سمجھ کر پیتا ہے وہ ایک حصہ دودھ اور تین حصے پانی والا دودھ ہوتا ہے۔ اب چودھری نے ان تین نوکروں کی نگرانی کیلئے ایک زرا سخت طبیعت کا نوکر رکھا اور اسے تنبیہ کی کہ ان کی نگرانی کرے تاکہ ان کوسخت سے سخت سزا دی جا سکے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ چوتھا بندہ بھی ان تینوں کے ساتھ مل گیا اور دودھ کا چوتھا حصہ اس نے اپنے نام کیا ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اب چودھری صاحب کو دودھ کہاں سے دیا جائے۔ ان چاروں نوکروں میں سے ایک نے اس کا حل یہ نکالا کہ جب چودھری صاحب سو رہے ہوں تو دودھ کی تھوڑی سی چھاچھ یا ملائی ان کی مونچھوں پر لگا دی جائے، جب چودھری صاحب سو رہے تھے تو ان چاروں نے مل کر اس کی مونچھوں پر چھاچھ یا ملائی لگا دی ۔ اور جب چودھری صاحب سو کر اٹھے تو اس نے دودھ کی طلب ہونے پر اپنے نوکروں کو بلایا اور دودھ کا مطالبہ کیا تو چاروں نے مل کر اس کے سامنے آئینہ دکھا کر کہا کہ جناب سونے سے پہلے آپ کو دودھ دے دیا تھا اور آپ نے بڑے سیر ہوکر دودھ پیا اور آپ سو گئے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کی مونچھوں پر ابھی تک دودھ کی چھاچھ یا ملائی لگی ہوئی ہے۔اس ساری مزاح نما کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کہانی میں چودھری کا کردار ہمارے عوام اور نوکرلوگ ہماری حکومتیں ہیں جو سارے عوام کی مونچھوں پر چھاچھ لگا کر عوام کو بے وقوف بناتی ہیں کہ سب ٹھیک چل رہاہے اور ہم آپ کو صحیح اور خالص چیزیں فراہم کر رہے ہیں، بس آپ سو جائیں اورعوام سو جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں اگر آپ باہر نکل کر کسی بھی سڑک پر کھڑے ہو کر آتی جاتی عوام سے دریافت کرنا شروع کریں کہ ''آپ اپنی حکومت کو کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟'' تو 90% لوگ یقیناً یہی کہیں گے کہ ہماری تو آمدنی ہی اتنی نہیں یا ہمیں پیٹ بھر کے کھانا بھی مل جائے تو غنیمت ہے ہم ٹیکس کہاں سے دیں؟ اوریقین جانئے بہت سوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ ٹیکس کس چڑیا کا نام ہے؟انہیں تو یہی بہت ہے کہ انہیں کھانے پینے کی چیزوں میں ریلیف مل جائے، اورضروریات زندگی کی ہر چیز سستی مل جائے بس ۔۔۔
پوری دنیا کے ہر ملک کی اکنامی کا دارومدار ٹیکس پر چلتا ہے، جس سے ملک بھر کی تعلیم،صحت، دفاع، سرکاری دفاتر کی تنخواہوں، اقتدار میں شامل حکومتی اہلکار، غرضکہ ہر شعبہ ہائے زندگی ٹیکس سے حاصل شدہ رقوم سے چلتا ہے۔ ٹیکس کے بارے میں اگر سمجھا جائے تو یہ دو طرح کا ہے، 1۔ ڈائریکٹ ٹیکس 2۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس ۔۔ ڈائریکٹ ٹیکس تو وہ ہے جو کہ آپ کی آمدنی کو سامنے رکھ کرلیا جاتا ہے، جو کہ وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو حکومت کی طرف سے دی جانیوالی ایک مخصوص آمدنی سے زیادہ کماتے ہیں تو اس آمدنی پر آپ سے حکومت مطالبہ کرتی ہے کہ اس اضافی آمدنی میں سے حکومت کو بھی کچھ نہ کچھ ادا کریں تاکہ آپ کو اس کے بدلے کچھ آسانیاں دی جائیں۔ اور دوسرا ان ڈائریکٹ ٹیکس ۔۔۔ یقین جانئے دنیا میں بسنے والا ہر شخص جس کی نبض چل رہی ہے وہ اس کو ادا کرتا ہے۔ایک چھوٹے بچے جو کہ کوئی چاکلیٹ گولی ٹافی خریدتے ہیں سے لیکر ادھیڑ عمر شخص مردوزن سب لوگ مارکیٹ، دکان سے جب بھی کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس کا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتا ہے۔ جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ادا کیا جانیوالا ٹیکس ہے، میڈیکل کی دوائی ہو، گھریلو ضروریات کا سامان ہو، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں ادا کیا جانیوالا بل ہو یا تعلیمی میدان میں خرچ کیا جانیوالا پیسہ ہو اس میں ہمارے معاشرے کا ہر بندہ ٹیکس دیتا ہے۔ جس کا ہمارے معاشرے میں بسنے والے زیادہ تر لوگوں کو ادراک نہیں۔ اس ٹیکس کو ادا کرنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ کیونکہ اس چیز کی قیمت ہی یہی ہے اس لئے وہ بخوشی ادا کر دیتا ہے۔اور سارے زمانے میں مہنگائی کا رونا روتا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنی سالانہ آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے تو اس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس سلسلے میں سختی تو دکھائی ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے تو نہیں لیکن آنے والے چند سالوں میں اس کی امید ضرور کی جا سکتی ہے۔
یہاں یورپ میں اگر کسی بھی عام شخص نے چھوٹی سے چھوٹی مونگ پھلی کی ریڑی یا برگر کی ریڑھی سے اپنا کاروبار شروع کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے کاروبار کے متعلق ساری تفصیل کا لوکل اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے، جس میں اسے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اس کاروبار کو کرنے کا اہل بھی ہے یا نہیں، اور اگر وہ اہل نہیں تو اسے یہاں کی گورنمنٹ اس کاروبار کے متعلق جامع معلومات کا کورس کرنے کا مشورہ دے گی۔ اس کو کرنے اور اس کا سرٹیفکیٹ وغیرہ حاصل کرنے کے بعد ہی وہ کاروبار کرنے کا اہل ہو سکے گا۔ اور جب وہ اہل ہو جائیگا تو اسے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ اس کاروبار میں اندازاً سالانہ کتنا پیسہ کما لے گا۔ اگر تو وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے معیار کے مطابق ہو گا ٹھیک ورنہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ آپ کو کچھ رقم ماہانہ امداد کے طور پر فراہم کریگا کہ آپ کی آمدنی اتنی ہو جائے کہ آپ کا گزربسر ایک متوسط طبقے کے معیار کے مطابق ہو۔ پورے ایک سال کے بعد ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو آپ اپنی آمدنی کی تفصیل سے آگاہ کریں گے۔ اگر تو آپ کی آمدنی اس اندازاً آمدنی کے اندر ہوگی جو آپ نے سال کے شروع میں انہیں بتائی تھی تو ٹھیک ورنہ اگر آمدن بڑھ گئی تو اس کا حساب کتاب کر کے آپ سے ٹیکس مد میں دی گئی ماہانہ امداد سے کچھ فیصد واپس لے لئے جائیں گے۔ اس سارے عمل سے یہاں بسنے والے سب لوگ بہت خوش ہیں اور یقین جانئے کسی کو کوئی شکایت نہیں۔ پیٹرول بجلی گیس اور ضروریات زندگی کی جو بھی چیزوں کی قیمتوں میں اونچ نیچ کا یہاں رہنے والے لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
پاکستان کے سارے طبقے میں ٹیکس چوروں اور آمدن کو چھپانے کا رواج عام ہے۔ پاکستان جیسے بڑے اور زیادہ آبادی والے ملک میں اگر یہی ٹیکس نظام رائج ہو جائے تو یقیناً آپ اور ہم سب غریب و امیر کا نظام زندگی آئیڈیل ہو جائیگا۔ افسوس کہ پاکستان کے اکثر لوگ تو ٹیکس کے دائرہ میں آنے کو تیار نہیں لیکن مفت تعلیمی، مفت صحت، اور تمام سہولیات وہ مانگتے ہیں جو یورپ میں بسنے والے لوگوں کو میسر ہیں، اب یہ فیصلہ تو ہمارے ملک کی عوام کو ہی کرنا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیونکہ اسی قسم کی ایک اور بات ذہن میں آ رہی ہے کہ ہمارے بہت سے سمگلر، چور، ڈاکو، اور ذخیرہ اندوزاپنی کمائی بل گیٹس اور پوری دنیا کے امیر ترین لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں، زندگی سوئٹزرلینڈ، امریکہ ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں گزارنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، اور وہیں کی زندگی کو آئیڈئلاز کرتے ہیں لیکن اپنی بعدازموت تدفین مکہ اور مدینہ میں کروانا چاہتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بھی مدفون ہونے کے بعد ان کا حساب کتاب ویسا ہی ہو گا جیسا دنیا کے کسی بھی مقام پر مدفون ہونے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف سے بھیجے گئے فرشتوں کے سوالوں کے جواب دیئے جائیں گے۔وہی مومن مسلم اپنے عمالوں کا جواب دے سکے گا جو اپنے ساتھ نیک عمال اپنے ساتھ لیکر گیا ہو گا۔
ساماں سو برس کا پل کی خبرنہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.