کشمیر کہانی

بدھ 5 اگست 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

پچھلے سال پانچ اگست کو میڈیا پر خبر چلی کے مودی سرکار نے کشمیر کا خصوصی  اسٹیٹس ختم کر دیا اور کشمیر کو یونین ٹیرٹری بنا دیا۔ اس پر پاکستانی اپوزیشن نے بہت شور شربا کیا اور وزیر اعظم عمران خان پر الزام لگایا کہ انہوں نے کشمیر کا سودا کر لیا کیوں کہ 2019 کے بھارتی الیکشن سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہا تھا کہ اگر مودی کی حکومت دوبارہ منتخب ہوتی ہے تو یہ دونوں ممالک کے مفادات کے لیے بہتر ہوگا۔

اس بھارتی آئین میں ترمیم کے ردعمل میں عمران خان نے سلامتی کونسل میں ایک بہترین تقریر بھی کی اور پاکستان کی درخواست پر سلامتی کونسل کی سیکورٹی کونسل کا خصوصی اجلاس بھی ہوا۔ لیکن ان سے پیشرفت ممکن نہ ہوسکی۔آب ایک سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان بھارت کے اس اقدام کے خلاف خاطر خواہ لابنگ کرنے میں ناکام رہا ہے۔

(جاری ہے)


پانچ اگست سے پہلے بھارت کے انتیس صوبے تھے اور سات یونین ٹیرٹریز تھی۔

ان انتیس صوبوں میں سے ایک کشمیر بھی تھا۔لیکن پانچ اگست کے بعد مودی سرکار نے پارلیمنٹ میں ایک بل کے ذریعے کشمیر کے صوبے کا اسٹیٹس ہی ختم نہیں کیا بلکہ کشمیر سے لداخ کو بھی الگ کر دونوں کو الگ سے  یونین ٹیرٹریز میں بدل دیا۔آب بھارتی آئین کے مطابق بھارت میں 28 صوبے اور 9 یونین ٹیرٹریز ہیں۔
بھارتی آئین کے مطابق ملک کو انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ایک کو سٹیٹس یعنی صوبے کہتے ہیں۔ ان صوبوں کی ایک صوبائی خودمختار اسمبلی ہوتی ہے۔ اور یہ قانون سازی کی اہل ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ علاقے جو بھارتی سرکار کے مطابق صوبے کی حیثیت سے نہ رہ سکیں اُنہیں بھارت کی مرکزی حکومت اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہیں۔ ان علاقوں کو یونین ٹریٹرز کا نام دیا جاتا ہے۔ یونین ٹیرٹرز بنیادی طور پر براہ راست وزیر اعظم کی ماتحت ہوتی ہیں اور ان کا انتظام چلانے کے لیے وزیراعظم ایک لیفٹیننٹ جنرل گورنر کو نامزد کرتا ہے۔

اس طرح اس علاقے میں ایک قسم کی امریت نافذ کر دی جاتی ہے۔
کشمیر پر  بھارتی قبضے کے بعد بھارتی حکومت نے ارٹیکل 370 اور ارٹیکل 35 الف کے تحت کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس دیا تھا۔اس قانون کے مطابق کوئی عام بھارتی شخص کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا تھا اور اس طرح متنازعہ علاقہ ہونے کے وجہ سے اس کی الگ شناخت قائم رکھی گئی۔مودی سرکار نے کشمیر کے اس اسپیشل اسٹیٹس کو ختم کرنے کے لیے بھارت میں ایک بہترین ماحول بنایا۔

سب سے پہلے اس شق کو اپنے منشور میں شامل کیا۔پھر سردار پٹیل جنہوں نے تمام ریاستوں کا بھارت کے ساتھ الحاق کروایا تھا اس کا بہت بڑا مجسمہ بنایا اور اس کی تقریب رونمائی کے میں اعلان کیا کہ مودی سردار پٹیل کے ریاستوں کے الحاق والے مشن کو پورا کرے گا۔
پچھلے سال بھارت کے یونین کے وزیر امیت شاہ (جو کہ بی جے پی کے صدر بھی تھے 2019 کے الیکشن میں) نے ارٹیکل 370 اور اور ارٹیکل 35 الف کو ختم کرنے کا بل پارلیمان میں پیش کیا۔

اس بل کے پیش کیے جانے سے پہلے کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا اور حریت کے ساتھ ساتھ وہ تمام لیڈران جو کہ بھارتی آئین کا حلف اٹھا چُکے ہیں اُن کو بھی گھروں میں نظر بند کر دیا یا گرفتار کر دیا۔ کشمیر سے پارلیمنٹ کے منتخب رکن فاروق عبداللہ کو بھی نظر بند کر دیا۔ اسمبلی میں جب اپوزیشن نے احتجاج کیا تو امیت شاہ نے کہا کہ وہ خود نہیں آئے اُنہیں نظر بند نہیں کیا گیا ہے۔

ایسی روز فاروق عبداللہ کا ایک ویڈیو پیغام آیا کہ اُنہیں گھر میں نظر بند کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی مودی سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی اور انہوں نے طاقت کے بلبوتے پر یہ بل منظور کرا لیا۔
اس تمام صورتحال میں ایک شخص شاہ فصیل کا کردار بہت اہم تھا۔شاہ فیصل نے کشمیری نوجوان کی حیثیت کے بھارتی مقابلے کا امتحان ٹاپ کیا تھا۔ لیکن دس سالہ نوکری کے بعد انہوں نے 2019 میں نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے بھارتی آئین کے اندر رہ کر کشمیر کی جدوجھد لڑنے کا اعلان کیا۔ اس معاملے میں شاہ فیصل کو بھی بھارتی حکومت نے گھر میں نظر بند کر دیا۔ یہ وہی شاہ فیصل ہیں کہ جب انہوں نے ائی اے اس کا امتحان پاس کیا تھا تو بھارتی میڈیا نے ان کی کامیابی کا جشن منایا کہ ایک کشمیر نوجوان ھتیار اُٹھانے کی بجائے تعلیمی میدان میں آگیا۔ آج وہ شاہ فیصل گھر میں نظر بند ہے کیوں کہ وہ کشمیر کے اسٹیٹس کو بدلنے کے خلاف تھا۔


بھارتی آئین کے مطابق کشمیر چونکہ ایک صوبہ تھا اس لیے بھارتی صدر کو ارٹیکل تین کے تحت اس بل پر کشمیری پارلیمنٹ کے رائے لینے کا مسودہ بجھوانا تھا۔لیکن مودی سرکار نے انتہائی چالاکی کے ساتھ کشمیر اسمبلی میں انتشار پیدا کیا اور وہاں ایک بھی پارٹی اپنی اکثریت ثابت نہ کرنے پر وزیر اعلی منتخب نہ کر سکی اور یوں یہ اسمبلی برخاست ہوگئی۔

اس طرح کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کروانے میں حائل یہ روکاوٹ بھی دور کر دی گئی۔ یہ حرکت  بھارت کے منہ پر تماچہ ہے۔ایک انہوں نے صوبائی اسمبلی سے اجازت نہیں لی۔ دوسرا انہوں اجلاس کے لیے کشمیر سے منتخب رکن فاروق عبداللہ کو آنے نہیں دیا۔اور تیسرا یہ کہ انہوں بغیر صوبائی اسمبلی کے منظورِی یا ریفرنڈم کے لداخ کو جموں و کشمیر سے علیحدہ کر دیا۔


اس بل کے بعد بھارت نے ایک نیا نقشہ جاری کیا۔ اس میں سارے کشمیر بشمول گلگت بلتستان اور لداخ کو بھارتی علاقہ قرار دیا گیا۔ لداخ کے کچھ علاقوں پر چین کے دعویداری بھی موجود ہے۔ اس عمل کے بعد چین نے بھی بھارت سے احتجاج کیا اور سلامتی کونسل میں بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ جب دال نہ گلی تو چین خود لداخ میں گھس گیا اور اہم دفاعی مورچوں پر قابض ہوگیا۔

مودی جو کہ چیخ رہا تھا اب اس معاملے میں بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔
پاکستان میں اس بل پر جو شور شربا اٹھا اور جو الزامات عمران خان پر لگائے گئے۔ ان کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ مودی کے پاس دو تہائی اکثریت ہے اور کشمیر کا اسٹیٹس ختم کرنا اُسکا ایجنڈا تھا۔اس لیے اس کو روکنا عمران خان کے بس سے باہر ہو چکا تھا۔ دو تہائی اکثریت پر اگر نون لیگ نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کا بل پاس کروا سکتی ہے تو مودی کو اسٹیٹس ختم کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ آب پاکستان کے لیے سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ خود کو  معاشی طور پر مضبوط کرے۔کیوں کہ ہر کشمیری کی نگاہ پاکستان کے طرف ہے۔ اور دنیا میں اگر آپ معاشی طور مضبوط نہ ہوں تو آپ کو کوئی منہ نہیں لگتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :