کشمیری مرنے سے نہیں ڈرتے، آپ لکھنے سے ڈرتے ہیں

ہفتہ 8 فروری 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

کسی بھی انسان کے خلوص کی سچائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آپ سے کیسے ملتا ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اس فارمولے پر کشمیریوں کو رکھیں تو پتا چل جاتا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستانیوں کے ساتھ دل کھول کر ملتے ہیں اور پاکستانیوں کی محبت کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہتے۔ پاکستانیوں کی طرف سے بھی ایسا ہی خلوص بھرا ردعمل کشمیریوں کو پچھلی سات دہائیوں سے مل رہا ہے۔

یعنی ”آپ ہیں ہمارے اور ہم ہیں آپ کے“۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرف سے جب بھی کوئی کشمیری اِدھر آجائے تو اُس کی آؤبھگت میں عام پاکستانی بھی کچھ خاص کرنے کو ہروقت تیار رہتے ہیں۔ 
البتہ اُدھر سے آنے والے کشمیریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سنا جائے تاکہ غلط فہمیوں اور پراپیگنڈے کے اِس طوفانی عہد میں دل اور باتیں صاف رہیں۔

(جاری ہے)

کچھ عرصہ قبل حریت کانفرنس کے نامور رہنما اور جے کے سیلویشن موومنٹ کے چےئرمین ظفر اکبر بھٹ پاکستان آئے۔ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے میڈیا کے لیے کچھ وقت مختص کیا۔ بلند آواز میں آزادی کے ترانے پڑھنے والے اِن کشمیریوں کی انسانی اقدار بھی بلند ہیں۔ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کے حوالے سے کشمیریوں کی روزمرہ عادات و اطوار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ بھارت کی جیل میں لمبی قید گزارنے کے بعد رہا ہوئے تو وہ اپنے عزیزو اقارب کو ملنے کی بجائے سب سے پہلے جے کے ایس ایم کے سینئر اراکین کے ہمراہ جموں و کشمیر کے گوشے گوشے میں گئے اور اُن خاندانوں سے ملے جن کے افراد ظفر اکبر بھٹ کی قید کے دوران بھارتی ظلم و تشدد کے نتیجے میں شہید، زخمی، لاپتہ ہوئے یا قید میں چلے گئے۔

 ظفر اکبر بھٹ کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ پُرسا کرنے کے بعد اُن کا آزادی پر یقین پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہوگیا کیونکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں شہید، معذور، لاپتہ یا قید ہونے والے افراد کے خاندانوں کا حوصلہ پہلے سے بلند تھا۔ ظفر اکبر بھٹ اور آزادی کشمیر کی تحریک سے جڑے ہرخاص و عام کو سن کر یہ سوچنا مشکل نہیں کہ بھارتی اہلکاروں کے پاس کشمیریوں کو آزادی سے روکنے کے لیے اذیت دینے کے طریقے پرانے ہوچکے ہیں جبکہ پرانی کشمیری نسل نئی کشمیری نسل کو آزادی کی تحریک منتقل کرچکی ہے۔

 جب بھی بھارتی اہلکار کشمیریوں کو ٹارچر کرنے کا کوئی نیا طریقہ ایجاد کرتے ہیں، اُس وقت تک کشمیریوں کی نئی نسل اپنی تحریک کو بہت آگے لے جاچکی ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل سطح پر مخصوص حالات کی وجہ سے بھارت کی سفارت کاری پاکستان سے زیادہ موثر ہے۔ اسی لیے کشمیریوں کے بہتے خون سے دنیا غافل رہنا چاہتی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر وہ واحد تحریک ہے جو دنیا کے منصفوں کے منہ موڑے رکھنے کے باوجود بھی زندہ سلامت ہے۔

یہ کشمیریوں کے عزم اور تحریک آزادی کا کمال ہے کہ اب اِس کا جادو بھارت کے سرچڑھ کر بولنے لگا ہے۔ پاکستان کی سفارت کاری میں جو حالیہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اُن کا فائدہ تحریک آزادی کشمیر کو بھی ملنا چاہیے۔
 سفارت کاری میں حکومتی سطح کے تعلقات کے ساتھ ساتھ لوگوں سے لوگوں کے تعلقات بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ پاکستان کشمیریوں پر بھارتی ریاستی ظلم و تشدد اور تحریک آزادی کشمیر کے لٹریچر، دستاویزات اور فلموں وغیرہ کو چینی، روسی، فرانسیسی، کورین اور عربی زبانوں میں ترجمہ کرکے مذکورہ ملکوں میں خوب پھیلائے۔

اس سے چین، روس، فرانس، کوریا اور عرب کے عام باشندے بھارتی جارحیت اور کشمیریوں کا موقف براہِ راست سمجھ پائیں گے۔ اس طرح اِن ممالک کے عوام میں کشمیریوں کے حق کے لیے جو شعور پیدا ہوگا وہ اُن کے ممالک کی خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوگا اور یوں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو انٹرنیشنل برادری میں گراس روٹ لیول پر بڑی تعداد میں موثر لابی میسر آجائے گی۔

 تیس مار خان نظر آنے والا بھارت حریت پسند کشمیری شہداء سے بھی ڈرتا ہے۔ مثلاً حریت پسند کشمیری رہنما مقبول بھٹ کو 11فروری 1984ء کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ بھارتی حکام نے مقبول بھٹ کا جسد خاکی لواحقین کو واپس کرنے کی بجائے تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا۔ ایک اور حریت پسند کشمیری رہنما محمد افضل گرو کو 9فروری 2013ء کو اسی تہاڑ جیل میں آزادی کا الزام لگاکر پھانسی دے دی گئی۔

اُن کی قبر بھی تہاڑ جیل میں ہی بنا دی گئی۔ مقبول بھٹ اور محمد افضل گرو کے ورثاء دنیا سے کہتے ہیں کہ کم از کم انہیں اپنے عزیزوں کی تدفین کا حق تو دلوا دیں۔ مشہور امریکی رائٹر جیمز تھربر کی ایک شارٹ سٹوری ”دی سیکرٹ لائف آف والٹرمیٹی“ 1939ء میں امریکی جریدے دی نیویارکر میں شائع ہوئی۔ کہانی میں بتایا گیا کہ والٹرمیٹی ہروقت مہمات کی خیالی دنیا میں رہتا ہے۔

 کبھی وہ تصورات میں اپنے آپ کو جنگ عظیم کا انتہائی اہم لڑاکا پائلٹ خیال کرکے جنگی معرکوں میں شامل سمجھتا ہے، کبھی وہ اپنے آپ کو انسانی زندگیاں بچانے والا انتہائی اہم ایمرجنسی سرجن خیال کرتا ہے اور کبھی وہ اپنے آپ کو بے پرواہ کھلنڈرا بانکا قرار دیتا ہے۔ دن میں دیکھے جانے والے انہی خوابوں کے آخر میں والٹرمیٹی تصور کرتا ہے کہ وہ بڑی بہادری سے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑے ہوکر گولیوں سے چھلنی ہوگیا ہے۔

والٹرمیٹی اتنا مشہور ہوا کہ وہ محاورے کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ یہاں تک کہ امریکی وزارت خارجہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ والٹر آئزک سن نے 1992ء میں ہنری کسنجر کی بائیوگرافی میں لکھا کہ ”1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران 6اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے چیف آف سٹاف جنرل الیگزینڈر ہیگ پر زور دیا کہ وہ صدر نکسن کو امریکی دارالخلافے واشنگٹن سے دور فلوریڈا میں ہی رکھیں تاکہ اُن کی طرف سے کسی بھی بے قابو دیوانگی والی کیفیت سے پیدا ہونے والی والٹرمیٹی حرکتوں کو کنٹرول کیا جاسکے“۔

 بھارت بھی کشمیر کے حوالے سے والٹرمیٹی جیسا ہی کردار ادا کررہا ہے جبکہ کشمیر ایک حقیقت ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے کشمیری پاکستانی قلم کاروں کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں کہ ”اپنی حکومتوں کی مصلحتوں اور منافقانہ پالیسیوں کی پرواہ کیے بغیر کشمیریوں کی آواز دور دور تک پہنچائیں، تحریک آزادی کشمیر پر ہرانداز میں ہروقت لکھیں اور بات کریں“۔ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کررہے ہیں کہ ”آزادی کے لیے کشمیری مرنے سے نہیں ڈرتے، آپ آزادی کشمیر پر لکھنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :