
پی پی پی۔ تین بڑے اور تین خوبیاں
پیر 19 اپریل 2021

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
ان میں مظلومیت کے نام پر زندہ رہنا، ضرورت کے مطابق اندر یا باہر سرتسلیم خم کرلینا اور اپنے محسنوں کو خفیہ طور پر دغا دینا شامل ہیں۔
آئیے ان تینوں خصوصیات کا ترتیب وار تجزیہ کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل کے وقت ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی مظلومیت کو ایکسپولائٹ کیا جس کے باعث انہیں ایک دم راکٹ پاپولرازم ملا لیکن بعد کے آنے والے حالات گواہ ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ اُن تمام نعروں سے دور ہوتے گئے جو عوامی توجہ کا باعث بنے تھے۔ مثلاً جمہوریت میں دوسروں کی رائے کا احترام مگر ذوالفقار علی بھٹو اپنے حقیقی رفقاء کی رائے کو بھی ناپسند کرنے لگے۔ مثلاً تنقید کو برداشت کرنا مگر ذوالفقار علی بھٹو تنقید کو دشمنی سمجھنے لگے۔ مثلاً ڈکٹیٹرشپ والے مزاج سے نفرت کرنا مگر ذوالفقار علی بھٹو مزاجاً خود ڈکٹیٹر بن گئے۔ اُن کے بعد بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی مظلوم موت کی مظلومیت کے نام پر تینوں مرتبہ انتخابی مہم چلائی۔ گویا انہوں نے اپنے والد کی موت کو ایکسپولائٹ کیا اور عوام سے مظلومیت کا ووٹ حاصل کیا۔ بینظیر اقتدار میں رہیں یا اقتدار سے باہر، انہوں نے توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی ناگہانی موت کا خوب چرچا کیا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی تشکیل کا انفراسٹرکچر کسی بھی مظلوم موت پر واویلے کی بجائے عوام کی دادرسی پر مبنی تھا لیکن شاید نظریاتی انفراسٹرکچر پر کام کرنا مشکل اور مظلومیت کا واویلا کرنا آسان کام تھا۔ بینظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری نے بھی اپنی بیوی بینظیر بھٹو اور اپنے سسر ذوالفقار علی بھٹو کی الم ناک اموات کو عوام کے جذبات ابھارنے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں نئی روح اس طرح پھونکی کہ پرانے نظریاتی کارکنوں سمیت ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے دیرینہ ساتھیوں کو ایک طرف کردیا اور ان کی جگہ کئی نئے چہرے متعارف کرائے جن کا واحد میرٹ آصف علی زرداری سے تعلق داری تھا۔ تاہم آصف علی زرداری نے ایک قدم آگے بڑھ کر بیگم نصرت بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی اموات کو بھی مظلومیت ایکسپولائیٹیشن شو کا حصہ بنالیا۔ اب بلاول بھی اپنے نانا اور والدہ کی غیرطبعی اموات کے سہارے پولیٹیکل فلائٹ لے رہے ہیں۔ ان کے ایجنڈے میں بھی اپنے خاندان کی مبینہ اموات پر مظلومیت کا ووٹ حاصل کرنا سرفہرست لگتا ہے۔ بلاول اپنے والد اور والدہ کے مقابلے میں فی الحال تھوڑے سے مختلف ہیں۔ وہ ایسے کہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں کو ایک طرف کردیا تھا۔ اسی طرح آصف علی زرداری نے اپنے سسر اور اپنی اہلیہ کے ساتھیوں کو نکرے لگا دیا تھا مگر بلاول ابھی تک اپنے والد کے دوستوں اور مشورہ کاروں سے ہی مشورہ حاصل کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دوسری کوالٹی ضرورت کے مطابق اندر یا باہر سرتسلیم خم کرلینا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے لیے جنرل ایوب خان کو سیاسی ڈیڈی بنایا پھر اقتدار میں آنے کے لیے امریکہ کی آشیرباد حاصل کی۔ بینظیر بھٹو نے امریکہ کے ذریعے جنرل ضیاء الحق سے معاملات طے کیے اور پاکستان واپس آئیں۔ پھر امریکی معاملات کے ساتھ ساتھ ملکی سٹیبلشمنٹ کی بات ماننے کا بھی تاثر دیتی رہیں۔ آخری مرتبہ جنرل پرویز مشرف سے بھی این آر او کرلیا۔ آصف علی زرداری جو اس طرح کے کاموں کے کنگ ہیں پہلے ملکی سٹیبلشمنٹ کے سامنے دوزانو ہوئے پھر انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ سے درپردہ تعلقات جوڑنے لگے۔ بلاول کا ابھی آغاز ہے اور ان کے اندر باہر کے تعلقات کے درمیان میں آصف علی زرداری ابھی موجود ہیں۔ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری تک سب نے ضرورت پڑنے پر اندر اور باہر کی سٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ پیپلز پارٹی کی تیسری خصوصیت اپنے محسنوں کو خفیہ طور پر دغا دینا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے محسن جنرل سکندر مرزا کے خلاف خفیہ طور پر جنرل ایوب خان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے خفیہ طور پر انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ سے مل کر اپنے سیاسی ڈیڈی جنرل ایوب خان کو ناکارہ بنایا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آگئے تو انہوں نے امریکہ کے مقابلے میں ابھرتی سپرطاقت چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے شروع کیے اور دیگر ممالک کی صف بندی بھی شروع کردی جو ذوالفقار علی بھٹو کے محسن امریکہ کو دھوکہ دہی محسوس ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل میں جن نامور لوگوں نے ساتھ دیا انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے راستے سے ہٹا دیا۔ بینظیر بھٹو ملکی سٹیبلشمنٹ کی آنکھ بچاکر بیرونی سٹیبلشمنٹ سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اسی طرح آصف علی زرداری نے بھی اندرونی محسنوں سے چھپ کر بیک ڈور چینلز کے ذریعے بیرونی لوگوں کو محسن ماننے کا اشارہ دیا۔ مذکورہ تینوں نکات پر دلائل کے بعد مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی کے تینوں بڑے یعنی ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پارٹی کی تینوں کوالی ٹیز یعنی مظلومیت کے نام پر زندہ رہنے، ضرورت کے مطابق اندر یا باہر سرتسلیم خم کرلینے اور اپنے محسنوں کو خفیہ طور پر دغا دینے پر گامزن رہے ہیں۔ بلاول نے بھی اپنا آغاز انہی روایتی طریقوں سے کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ آئندہ پیپلز پارٹی کو مظلومیت ایکسپولائیٹیشن شو کی بجائے کیا عوامی امنگوں کی حقیقی جماعت بنائیں گے؟ وہ ضرورت کے مطابق اندر یا باہر سرتسلیم خم کرنے کی بجائے کیا صرف پاکستان کے مفاد کو سربلند رکھیں گے؟ اور وہ اپنے محسنوں کو خفیہ طور پر دغا دینے کی بجائے کیا عوام کو اپنا اصل محسن سمجھیں گے؟ ۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.