سانحات یقینی طور پر کسی بھی معاشرے، ملک، ریاست یا خطے کو ایک لمحے کے لیے جھنجھوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اگست 6 کا دن اور سال 1945 جاپان کو ہلا کے رکھ گیا۔ 6 اور 9 اگست کو پے در پے ہونے والے ایٹمی حملوں کے بعد کسی کے وہم و گماں بھی نہیں تھا کہ جاپان دنیا میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے راج کرئے گا۔ آج بھی آپ کو مارکیٹ میں ایک ہی چیز مختلف کوالٹی کی میسر آتی ہے اور اگر وہی چیز جاپانی کوالٹی میں میسر آ جائے تو خریدار خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہے کہ اس کی کوالٹی سب سے بڑھ کے ہو گی۔
کمپیوٹر ٹیکنالیوجی، کمپیوٹر مصنوعات، الیکٹرانک مصنوعات، گاڑیوں کی صنعت، ہر لحاظ سے جاپان کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے۔ چینی مصنوعات کی فراوانی کے باوجود جاپانی مصنوعات پائیداری میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔
(جاری ہے)
ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ 1945 کے سانحے کے بعد جاپان نے تمام تنازعات سے خود کو الگ تھلگ کر لیا۔ اور اپنی معیشت کو دنیا میں مقام دلانے کا تہیہ کر لیا۔
نتیجتاً آج ہم جاپان کو ایک صنعتی طاقت کے طور پہ جانتے ہیں۔ ایک سانحے سے ہی جاپانی قوم نے سبق سیکھا۔ اور ایک سانحے کو ہی ترقی کا راستہ بنا لیا۔ جرمنی لگثری گاڑیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے لیکن کیا آپ اس سانحے کو جرمنی کی تاریخ سے نکال سکتے ہیں کہ جس نے مشرقی و مغربی جرمنی کو الگ کر دیا؟ اور پھر دنیا میں ترقی کا استعارہ دیوارِ برلن کے ختم ہونے کے بعد بن گیا۔
دنیا کسی بھی رونما ہونے والے سانحے کے بعد اپنے لیے نئی راہیں متعین کرتی ہے۔ اور کوشش کرتی ہے کہ وہ ترقی کی نئی منازل طے کرئے۔
ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن اگر 16 دسمبر کو کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ کیوں کہ سقوط ڈھاکہ بھی اسی دن ہوا اور سانحہ اے پی ایس بھی اسی دن رونما ہوا۔ لکھاری تھکتے جا رہے ہیں۔ راقم الحروف نے کوئی تحریر اس دن نہیں لکھی۔
نقاد کہتے ہیں کہ لکھا کم جانے لگا ہے ہمارے سانحات پہ۔ عرض اتنی سی ہے کہ کیا لکھا جائے؟ کس قلم و روشنائی سے لکھا جائے کہ یہ قوم اس کو اپنا سفر بنا لے؟ سانحہ سقوط ڈھاکہ کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ کیا ہم نے اس سانحے سے سبق سیکھا؟ کیا ہم نے یہ سوچنا گوارا کیا کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش کیوں آیا؟ اس دور کے چشم دید گواہ بھی اس پہ لکھتے رہے۔
اور سینہ بہ سینہ سنائی جانے والی داستانوں کے امین بھی اس پہ لکھتے رہے۔ لیکن کیا ہمارے کانوں پہ جوں تک بھی رینگی؟ آج بلوچستان کے حالات کیا ہیں؟ بظاہر بہتری کی نوید ہے لیکن کچھ پتا نہیں کہ یہ آتش فشاں پھر کب لاوا اگلنے لگ پڑے۔ پنجاب کو بڑا بھائی کہہ کہہ کے دیگر صوبوں کی نظر میں اس کا مقام کیا کر دیا گیا ہے، یہ ایک ایسا کھلا راز ہے جو آج زباں زدِ عام ہے۔
صوبہ سندھ کے حوالے سے صورت حال کو حوصلہ افزاء کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہاں کے حاکم، کہ جن کے الفاظ نعرے بن جاتے ہیں، تعصب کی عینک اتارنے کو تیار نہیں ہیں۔
خیبر پختونخواہ کے حالات کسی طور بہتری کا اشارہ دے رہے ہیں۔ لیکن بطو رمجموعی دیکھیے، کیا ہم نے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھتے ہوئے صوبائی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے لیے مناسب اقدامات کیے؟ وسائل کی تقسیم پہ اٹھنے والے سوالات پہ کیا ہم خاطر خواہ جواب دے پائے۔
چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے ہم وقتاً فوقتاً امدادی پیکج کے اعلانات تو کرتے رہتے ہیں لیکن کیا ان صوبوں کے عوام کے دل حقیقی معنوں میں ہم مطمئن کر پائے ہیں۔ کیا آج ہم پاکستان میں کہہ سکتے ہیں کہ وفاق مضبوط ہے؟ کوئی شک نہیں کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ لیکن ہم تو 16 دسمبر 1971 سے پہلے بھی یہی کہتے تھے کہ کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
لیکن ہم فقط نعرے لگاتے رہے اور دشمن ایسا وار کر گیا کہ جس کا زخم ناسور بن کے آج تک رِس رہا ہے۔ سانحہ درپیش ہوا لیکن اس سانحہ کو ترقی کی منزل تک پہنچنے تک کا راستہ بنانے سے ہم آج تک قاصر ہیں۔
سانحہ اے پی ایس، یہ بھی سولہ دسمبر، یعنی یوم سیاہ بھی سیاہ ترین ہو گیا۔ کچھ لمحے کے لیے محسوس ہوا کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہو گئی ہے۔
اور شکر ادا کیا جانے لگا کہ اب تمام قومی معاملات باہمی اتفاق رائے سے طے کیے جانے لگیں گے۔ باہمی اختلافات، دلوں کا بغض، اجتماعی نفاق کو پس پشت ڈال کے ملک کی ترقی اہم جان لی جائے گی۔ لیکن اس سانحے سے بھی ہم سبق نہ سیکھ سکے۔ اور کچھ وقت کے بعد وہی بیانات، وہی بیانیے، وہی تو چور میں چور کی گردان، نہیں چھوڑوں گا، جانے نا پائے کی پکار۔
تم کرپٹ میں ایماندار کے نعرے سنائی دینے لگے۔ جس سیاسی بصیرت کی توقع ہم سے سانحہ اے پی ایس کر رہا تھا وہ ہم نے وقتی اُبال کے طور پہ دکھائی لیکن طویل المدتی پلان کے مطابق ہم اس پہ نہیں چل سکے۔ اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ملکی ترقی کے بجائے کہیں ایک دوسرے کو چور ثابت کرنے کی کوششیں ہیں تو کسی جگہ اپنی ایمانداری کی تاویلیں دی جا رہی ہیں۔
کوئی راگ الاپ رہا ہے ملک سے اپنے خلوص کا اور کسی کی حب الوطنی پہ سوالیہ نشان اُٹھائے جا رہے ہیں۔
ہم نے بطور قوم سانحات پہ صرف آنسو بہائے ہیں۔ کسی بھی سانحہ پر وقتی بین ڈالے ہیں اور کچھ ساعتوں بعد ہم نے ان سانحات سے حاصل ہونے والے اسباق ایسے بھلا دیے ہیں جیسے یہ سانحات کبھی ہوئے ہی نہیں۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے ہر سانحے کو چاہے وہ سولہ دسمبر کا ہو یا آٹھ اکتوبر کا، سقوط ڈھاکہ کا ہو یا سانحہ اے پی ایس، ہم نے ہر سانحے کو وقتی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش ضرور کیا اور عارضی فیصلے بھی کیے۔
لیکن ہم مستقبل کو سنوارنے کے لیے فیصلہ سازی نہیں کر پائے۔ اور کیسے مستقبل میں عالمی دنیا میں اپنا مقام پیدا کر پائیں، یہ کسی سانحہ کے بعد ہم نے مستقبل بنیادوں پہ اپنی پالیسی کا حصہ نہیں بنایا۔
قومیں سانحات سے سیکھتی ہیں۔ جاپان ہو یا ترکی، سانحات کے بعد قومیں اپنی ترقی کا راستہ خود طے کرتی ہیں۔ وہ دنیا کو بتاتی ہیں کہ ہم نے ایک لڑکھڑا جانے والے قدم کے بعد ترقی کی وہ رفتار حاصل کر لی ہے کہ اب حقیقی معنوں میں کوئی میلی آنکھ اٹھا کے ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔ ہمیں بھی سانحہ مشرقی پاکستان، سانحہ اے پی ایس اور دیگر سانحات کو اپنی ترقی کا زہنہ بنانا ہو گا۔ ورنہ آنے والا دور بہت کٹھن ہو جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔