اسرائیل کو کیوں نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے…؟

ہفتہ 22 اگست 2020

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

میرے اِس مضمون کے عنوان کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جس قوم پر اَلله تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے پھرہم مسلمان اُس لعنتی قوم کو گلے لگانے کے لیے کیوں مچل رہے ہیں۔یہودی نعوذبالله کبھی حضرت عزیر علیہ السّلام کواَلله تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے اور کبھی اپنی پوری ملّت کو ہی اَلله تعالیٰ کی اولادیں بتاتے تھے ۔یہودی نہ صرف انبیا کی تضحیک کرتے تھے ‘ وہ کہتے تھے کہ اَلله تعالیٰ فقیرہے اور نعوذبالله اُس کے ہاتھ بندھے ہوے ہیں۔

وہ توریت(تورات) کو اَلله کا کلام ماننے سے انکاری تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے اِستہزا کیا کرتے تھے وہ آپ علیہ اسلام سے کبھی کہتے کہ اَلله تعالیٰ کو نیچے بلا کر اُن کے روبرو کردو۔حضرت موسیٰ نے کہا کہ ایک اَلله کی عبادت کرو اُنھوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔

(جاری ہے)

یہودیوں کے یہاں یہ قصّہ مشہور ہے کہ حضرت عزیر علیہ السّلام نے نعوذبالله اَلله تعالیٰ سے کشتی لڑی تھی اور لڑائی بھڑائی کا سلسلہ رات بھر جاری رہا تھا اور بالآخر حضرت عزیر علیہ اسلام نے اَلله تعالیٰ کو شکست دے دی تھی۔


وہ قوم جس سے اَلله تعالیٰ نے نفرت اور بے زاری کا اظہار کیا ہے ہم مسلمان اُس لعنت زدہ قوم سے دوستی کرنے کے لیے پیچ وتاب کھارہے ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ یہودیوں سے صلح کرکے ہم ترقّی کی شاہراہ پر پہنچ جائینگے اور دنیا کو امن کا باغ بنا دینگے۔ایک شاطر کا قول ہے کہ کسی کو اگر نقصان پہنچانا چاہتے ہو تو اُس سے دوستی کرلو اِس طرح تم اُسے کھلا پلاکر اپنا راستہ صاف کرسکتے ہو۔

یہ عمل کرکے ہم شاید اپنا راستہ تو صاف نہ کرپائیں یہودیوں کا راستہ ضرور صاف ہوسکتا ہے۔
مسلمانوں کے بھیس میں سازشی لوگوں نے اِن دنوں اسرئیل کو تسلیم کرنے کی جو ہَوا چلائی ہے‘ مسلم ملّت اُس ہَوا کے رخ پر چل پڑی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بے ریش اور شاطرانہ سوچ رکھنے والے اور یہودیوں کو اپنا دوست سمجھنے والے عناصر کے ہاں میں ہاں ملانے کے لیے اب باریش علمااسلام بھی اپنے پر تولنے لگے ہیں۔

پچھلے دنوں کی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اے این پی کے رہنما میاں افتخار کے کندھے سے اپنا کندھا ملا کر بیٹھے ہوے تھے اور میاں صاحب اسرائیل سے بغلگیر ہونے کا بھاشن دے رہے تھے۔ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کو تو یہودی ایجینٹ ہونے کا الزام دیتے ہیں اور دوسری طرف خود یہودیوں سے یاری کرنے کا درس دینے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوے نظر آتے ہیں۔


اَلله تعالیٰ نے مسلمانوں کو دنیا کی چمک بھڑک پر نظریں کرنے کے لیے منع فرمایا ہے اور ہم اُسی طرف مائل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہودیوں کو گلے لگا کر ہم مال ومتاع کا ذخیرہ حاصل کرلینگے یا اِس طرزِعمل سے ہم دنیا کو اَمن وسکون عطا کردینگے۔اگر فی الواقعئی یہی سوچ کارفرما ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم ترکِ اسلام کرکے یہودی ہی بن جائیں تاکہ یہودیوں کی دولت پر ہمارے شرعئی حقوق کا اطلاق بھی ہوجائے اور دنیا ہمیشہ کے لیے امن کا گہوارہ بھی بن جائے۔


اگر دولت کی ریل پیل اور امن و آشتی ہی بنی آدم کو مطلوب ومقصود تھا تو حضرت محمّد مصطفےٰ صلی اَللهُ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیوں کیا تھا کہ آپ کے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی اگر رکھ دیے جائیں تو وہ مشرکوں کے خلاف تبلیغ سے باز نہیں آئینگے ۔یہ بات بھی مسلمانوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ آپ کی پوری زندگی غزوات میں گزری تھی۔

ایک جنگ ابھی فیصلے کے مرحلے میں ہی ہوتی تھی کہ دوسری جنگ کی تیّاری شروع کردی جاتی تھی۔
تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت مریم علیہما پر بدکاری کرنے کی تہمت لگائی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلاّم پراُن کے والد کے حوالے سے بے ہودہ اور غلیظ الزامات لگائے۔اُن مردودوں نے آپ علیہ اسلام سے دشمنی کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی حتّیٰ کہ آپ علیہ اسلام کو نیم عریاں کرکے دُرّوں سے زدو کوب کیا اور مار مار کر لہولہان کردیا اور آپ علیہ اسلام کے کندھوں پر انتہائی وزنی صلیب رکھ آپ علیہ اسلام کو گلیوں میں گھسیٹا۔

پھر نہ جانے کیوں عیسائیوں نے یہودیوں کو اپنے گلے کا ہار بنا رکھا ہے اور اُن کے اشارہ ابرو پر غلط سلط کام کرتے چلے جارہے ہیں۔
آخر میں میری عاجزانہ گزارش ہے کہ ہم مسلمانوں کو اِس حقیقت کو پوری دیانت داری اور ایمانداری کے ساتھ تسلیم کرلینا چاہیے کہ دنیا چند روزہ ہے اور یہ ایک دارالمحن ہے‘ حالات خواہ کتنے ہی پر خطر ہوں ہمیں اَلله تعالیٰ کے بتلائے ہوے راستے پر ہی چلنا چاہیے اور اُن لوگوں کی راہ پر نہیں جانا چاہیے جن لوگوں سے اَلله تعالیٰ ناراض ہُوا اور اُن پر غضب ناک ہُوا۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دولت اور حشمت سب یہیں دھری رہ جائے گی فقط ایمان ہی ہمارے ساتھ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :