
قوّت کا حصول ناگزیر ہے
جمعہ 30 جولائی 2021

سید شکیل انور
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دست بدست لڑنے والے اور جرأت مند سپاہیوں کے ساتھ ساتھ دُور مار ہتھیاروں کی بہت افادیت ہے۔
(جاری ہے)
اسلامی دور حکومت میں جہاں تلوار اور نیزے بنائے جانے پر توجہ دی جاتی تھی وہاں منجیق اور تیر کمانوں کی تیاری پر بھی خصوصی توجہ رکھی جاتی تھی۔تاریخ ہمیں یہ بھی بتلاتی ہے کہ اُس زمانے میں تیراندازی کے مشق بڑی باقائدگی سے کیے جاتے تھے اور اور نشانے داغنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ انھیں انعامات بھی دیے جاتے تھے۔
اِن دنوں تیروں اور تلوارو ں کی جگہ توپ اور میزائلوں نے لے لی ہے۔عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا آغاز میزائل داغ کر ہی کیا گیا تھا۔یہ صرف میرا ہی نہیں قارئین کا بھی مشاہدہ ہوگا کہ بلّی اور کتّے کو بھگانے کے لیے آپ اگر اپنے مُنہ سے ہُش ہُش کی آوازیں نکالتے ہیں تو وہ فقط جنبش ہی کرنے پر اکتفا کرتے ہیں یا دائیں بائیں ہوجاتے ہیں۔اگر آپ اپنے ہاتھ اٹھاکر کتّے بلّیوں کو دھتکارتے ہیں تو وہ ذرا دُور بھاگ کر کھڑے ہوجاتے ہیں تاہم آپ کے ہاتھ میں ڈنڈا دیکھ کر وہ دُور بھاگ نکلتے ہیں اور آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیروسِناں اوّل طاؤس ورباب آخر
علامہ اقبال رحمتہ اُلله علیہ نے جب یہ کلام سنایا تھا‘ اُس وقت سننے والوں نے خوب تالیاں پیٹی تھیں اب یہ شعر پڑھ کر ہم واہ واہ کی صدائیں بلند کرکے خوش ہوتے ہیں۔اِس شعر کا مفہوم کیا ہے اور شعر کہنے والے نے کِس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے‘ ہمیں یہ جاننے کی شاید ضرورت ہی نہیں ہے۔
لیبیا‘ عراق اور افغانستان کو میزائلوں نے مٹّی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے اورہم فلسطین میں غلیلوں سے ظلم روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اہلِ عرب تیز دھار والے ہتھیاروں سے خوفزدہ ہوکریہودیوں کے آگے سرنگوں ہوگئے ہیں اور غیرت پر مصلحت کو ترجیح دے رہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اُنھوں نے اِ س فارمولے پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے کہ جب اپنے دشمن کو زیر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاؤ تو اُس سے دوستی کرلو اور کسی روز اُس کو زہر ملا ہُوا مشروب پلا کر اپنا انتقام لے لو ۔اگر یہی غرض وغایت ہے تو یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہوگی کہ عرب اور اِسرائیل دونوں نے ایک ہی اُستاد سے درس تو نہیں لے رکھاہے۔
ADT Fourth World کے مطابق امریکہ میں مقیم بے شمار لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ کیسی عجیب بلکہ شرمناک بات ہے کہ امریکہ اپنے ملک میں غربت دُور کرنے کے بجائے دنیا بھر میں غربت پھیلانے کی کوشش میں سر گرداں ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جہاں بد امنی ہوتی ہے وہاں نہ صرف معاشی ترقی رک جاتی ہے ‘ بلکہ وہاں تعلیم اور صحت کا نظام بھی بگڑ جاتا ہے۔جنگی جرائم کرنے اور رُسوا ہوجانے کے بعد امریکی اور اُس کے حواری اگر گوشہ نشین ہوجاتے تو اُمید تھی کہ اِسلامی ممالک میں امن قائم ہوجاتا اور ترقی کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا۔امریکی عوام کے مسلک کے برخلاف امریکی حکمران اپنی ہوس جہاں گیری بلکہ دادا گیری سے دست کش ہونے پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں۔ وہ چھوٹے ممالک کو کچل دینے کے بعد روس اور چین کی سرزمین کو روندنے کے لیے پیچ وتاب کھار ہے ہیں۔
یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ ہوائی اور بحری طاقت خواہ کسی ملک کے پاس بہت بڑی ہو‘ اُن طاقتوں کا استعمال کرکے زمین پر پڑی ہوئی چیزوں کو برباد تو کیا جاسکتا ہے لیکن زمین پر اپنی فتح مندی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے پیدل فوج سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ نے ماں باپ سے محروم اور ملک بھر سے سمیٹے ہوے لقیط اور لاوارث بچّوں کو پال پوس کر اب تک جتنے فوجی تیار کیے تھے وہ لیبیا‘ ویت نام ‘ عراق اور افغانستان میں مرکھپ گئے ہیں۔ اب انکل سام کے پاس لڑاکا فوجیوں کی شدید کمی ہوگئی ہے۔
بھارت جو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی سے بے زار اور ازحد پریشان ہے ‘ ۔اُس کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ ہرایک گھنٹے پر بھارت کا ٹیلی ویژن گھڑی کی ٹک ٹک کرتا ہوا نمودار ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ بھارت کی آبادی اب ایک ارب دو کروڑ اسّی لاکھ بیس ہزار دو سو اڑتالیس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔بھارت میں سینکڑوں خواتین نس بندی کے عمل سے گزرتے ہوے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں اور گھر گھر رونا پیٹنا مچ گیا تھا۔یہی حال ہندو مَردوں کا ہُوا کہ وہ دھوتی اور پانچ سؤ روپے کے عوض اپنی مردانگی کھو بیٹھے ہیں۔آخرکار ہندوستان کی عدالتَ عظمیٰ نے مداخلت کرکے حکومت کو اِس کاروائی سے روک دیا۔عدالتِ عظمیٰ کا حکم اور بڑھتی ہوئی آبادی کے خوف نے ہندوستانی حکمرانوں کی نیندیں اُڑادی ہے۔ امریکہ نے بھارتی حکمرانوں کی اس نفسیات سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور بھارتی حکمرانوں کو چِین اور پاکستان کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔
Might is Rightیعنی ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ محض ایک کہاوت نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے اور روس نے عالم اسلام کو دوستی کی جو دعوت دی ہے اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کیا جائے۔بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ روس اور چین کے درمیان حائل برسہا برس کی رنجش کو ختم کرکے ایک مضبوط اتحاد بنائیں تاکہ امریکہ کو دراندازی اور دریدہ دہنی سے روکا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شکیل انور کے کالمز
-
”سب اچھا ہے“ اور” گھبرانا نہیں ہے“
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مہنگائی کے باعث آنسو نکل پڑے ہیں
ہفتہ 11 ستمبر 2021
-
طالبان کی آزمائش کا کڑا مرحلہ اب شروع ہُوا ہے
جمعہ 10 ستمبر 2021
-
پولیس اور عدالتیں تربیّت کی متقاضی ہیں
ہفتہ 4 ستمبر 2021
-
بڑا بھائی ہے جھوٹ بھی بڑا بولتا ہے
پیر 30 اگست 2021
-
لوہا گرم ہے‘ چوٹ لگادی جائے
جمعہ 20 اگست 2021
-
بیشتر سیاستدان‘ سیاست کے مفہوم سے ناواقف ہیں
پیر 9 اگست 2021
-
اُس کی ایمانداری اُسے مبارک ‘ ہمیں تو روٹی چاہیے
ہفتہ 7 اگست 2021
سید شکیل انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.