"ڈاکٹرز اور طبی عملہ اگلے مورچوں کی سپاہ"

جمعہ 20 مارچ 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

چائنہ نے بالاخر اس عالمی وبا پر قابو پا لیا، چین کے وباء سے متاثرہ شہر ووہان میں کووڈ 19 کے مریضوں کے نئے کیسز سامنے آنے کا سلسلہ رک گیا ہے ،ایک اندازے کے مطابق اسی ہزار سے زائد مریضوں میں سے تقریباً ستر ہزار کے لگ بھگ مکمل صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، باقی رہ جانے والے بھی تیزی سے روبہ صحت ہیں، بلاشبہ چینی قوم کی یہ کامیابی ان کے باہمی اتحاد و اتفاق ،ملی جذبے اور مثبت سوچ کی کی عکاسی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ اس کامیابی کا سہرا یقیناً چینی قیادت کے بروقت فیصلوں کو ضرور جاتا ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس معرکے کو سر کرنے میں چینی ڈاکٹرز اور ان کے ساتھ کام کرنے والے طبی عملے کی ہمت،جرأت اور صبر و استقامت کا بھی بڑا ہاتھ ہے- یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگوں میں اگلی صفوں کی سپاہ بہت اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں، اور کسی بھی جنگ میں کامیابی و ناکامی کا دارومدار بھی ان ہر اوّل دستوں کے جذبے اور مورال کی بلندی پر ہی ہوتا ہے ، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں  کہ کرونا کے خلاف عالمی جنگ میں ڈاکٹرز اورطبی عملے کا کردار سپاہ کے ہر اول دستے کا ہے ، اور آج بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے، کہ چین نے اپنے حصے کی یہ جنگ ان ہر اول دستوں کے جذبہ ایثار، بہادری ،دلیری اور قربانیوں  کی بنا پر ہی جیتی ہے ، چین کی ریاستی کونسل کی جانب سے حال ہی میں ایک میڈیا بریفنگ کے دوران  ڈاکٹرز اور طبی عملے کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کیاگیا بلکہ فرائض کی انجام دہی کے دوران کرونا کا شکار.ہونے والے پیرا میڈکس سٹاف کے کچھ اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں ،جن میں بتایا گیا کہ چین بھر میں نوول کرونا وائرس کے باعث طبی عملے کے 1,716ارکان متاثر ہوئے ، جن میں بدقسمتی سے چھ کارکن اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں- اسی طرح وائس آف اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے 18 شہروں کو 50 ہزار سکرینوں سے سجایا گیا جن پر ان ڈاکٹروں اور نرسوں کی تصاویر چلائی جا رہی ہیں ،جنہوں نے ڈٹ کر کرونا وائرس کا مقابلہ کیا اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچائیں-
 متذکرہ بالا اعدادو شمار کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ قوموں پر برے وقت ہمیشہ آتے رہے ،اور تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں مشکل حالات سے نبرد آزما ہو کر سرخرو ہوئیں ،جو ملی جوش و جذبے اور باہمی اتحاد و یگانگت کے ہنر سے آشنا رہیں- آج پاکستان میں بھی کووڈ-19 کے بڑھتے کیسز نے افراتفری پھیلا رکھی ہے، ڈاکٹرز اور پیرا میڈکل سٹاف کے تحفظات اور قوم کے اضطراب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بحیثیت قوم ہم تقسیم ہیں، اور اس موذی مرض کے خلاف لڑنے کے جوش و جذبے کا بھی فقدان ہے، اور طرح طرح کی مایوسیاں اور خوف پھیلایا جا رہا ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو وہ فضا اور ماحول میسر نہیں ،جو چائنہ کے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حکومتی اور عوامی سطح پر میسر رہا، ان میں سب سے اہم ناکافی طبی سہولیات اور محدود وسائل کا المیہ ہے جس نے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں نہتے ہی کرونا سے لڑنے کا احکامات آئے ہیں ،یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے واپڈا کے لاٸن مین کو حفاظتی سامان کے بغیر کھمبے پر چڑھا دیا جاۓ، اس سے اس کی موت بھی یقینی ہے اور یہ ایک بدترین ظلم بھی ہے، اسی طرح اگر ایک فوجی کو بغیر ہتھیار اور مورچے کے دشمن سے لڑنے کے لئے اس کے سامنے کھڑا کر دیا جائے  گے تو یقیناً اسے بیوقوفانہ سفاکی ہی کہاجاۓ گا، اسی طرح ورلڈ ہیلتھ آرگناٸزیشن کی سفارش کردہ حفاظتی سامان کے بغیر ڈاکٹرز کو کرونا کے مریضوں کے علاج کے لئے بھیجنا عاقبت اندیشی اور انتہائی غیر دانش مندانہ فعل ہے - عوامی سطح پر بھی ڈاکٹرز اور طبی عملے کی حوصلہ افزائی کے بجائے الٹا انہیں ان کے جائز مطالبات پر طعن و تشنیع اور تنقید کا سامنا ہے ، اور انہیں پیشے سے غداری کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے، جو کسی بھی طرح سے ہمارے اجتماعی فائدے میں نہیں ،شائد ہم نہیں جانتے کہ حفاظتی اقدامات کے بغیر کرونا کے مریض سے کانٹیکٹ کا مطلب خود کو کرونا سے انفیکٹ کرنا ہے، اور اگر ڈاکٹر ہی کرونا سے انفیکٹڈ ہوا تو وہ کتنوں کو انفیکٹ کرے گا ،اس کا اندازہ شائد ہماری اس جذباتی قوم کو ابھی تک نہیں-  اس لئے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ہر ممکن سہولیات مہیا کی جائیں، اس مقصد کے لئے اگر قوم کے پاس بھی جانا پڑے تو بلا جھجھک جائیں، کیونکہ اگر ڈیم فنڈ کے لئے عوام سے اربوں روپے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں، تو یہ تو اس سے بھی گھمبیر اور حساس معاملہ ہے، اسی طرح بحیثیت قوم ہم بھی ہر طرح کے مذہبی،سیاسی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، اور اپنے ان مسیحاؤں کی  ہمت بندھائیں ، ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کریں، ان کی حفاظت کے لیے مادی وسائل بھی بہم پہنچائیں اور روحانی دعائیں بھی ان کے ہمراہ کریں -اس وقت انہیں ایسے ہی تھپکی اور شاباش کی ضرورت ہے،جیسے سرحدی معاملات اور جنگوں میں ہماری افواج کے لئے ضروری ہوا کرتی ہیں- ہمیں یہ یاد یاد رکھنا چاھئیے کہ کرونا کے خلاف لڑنے والے یہ فوجی موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ بھی جہاد کی ہی ایک قسم  ہے ،اور اس جنگ میں کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ہر سطح پر اپنے ان سفید لباس سپاہ کی پشت پر نہ کھڑے ہوں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :