افواج کے ملک کی بہتری کیلئے کیے گئے اقدامات قابل ستائش

منگل 23 فروری 2021

Tariq Majeed Khokhar

طارق مجید کھوکھر

آج ہمارے ملک پاکستان کو غیر ممالک کی طرف سے جس طرح چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے ہمیں بحیثیت ایک قوم غور کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک عوام اور افواج پاکستان ایک نقطے پر نہیں ہونگے اس وقت تک اسی طرح کی صورتحال رہے گی۔۔۔۔لیکن ہمارے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ آج افواج پاکستان چیف آف آرمی چیف سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں جس طرح ملکی دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔

۔۔۔یہاں ایک بات قابل غور ہے۔۔۔
کہ ہمارے افواج پاکستان کے شہداء اور ہمارے لیے بیٹے ہیں انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر جس طرح وطن عزیز کی حفاظت کی ہم ان کی خدمات اور ان کے شہادت کے جذبے کبھی نہیں بھول سکتے ۔۔۔جبکہ افواج پاکستان جس طرح اپنے افسران اور جوانوں کی تربیت کرکے انہیں ملکی خدمت کے لیے تیار کیا جاتا ہے اس سے مستفید ہونا ہماری قوم کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔کیونکہ جب بھی کوئی مشکل آتی ہے بلکہ اگر ملک میں سیلاب آئے ،زلزلہ آئے اور دیگر کوئی بھی قدرتی آفات آئے اس میں سول حکومت وہ کردار ادا نہیں کرتیں جو ہماری افواج ادا کرتی ہیں ۔۔۔۔جبکہ فوج کی تربیت لیکر سول میں آنیوالے تمام فوج افسران جن کا حق بنتا ہے کہ وہ میرٹ پر آ کر سول اداروں کو ایسے نظم و ضبط سے چلاتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔۔

۔۔کیونکہ اگر بات سول محکموں میں میرٹ پر کی جائے تو اس ضمن میں جو افواج پاکستان نیوی۔۔ایئرفورس سے لوگ سول میں اپنے میرٹ پر آتے ہیں ان محکموں کی کارکردگی کو اس طرح بہتر کرتے ہیں کہ ہر کام ایک نظام کے تحت کے چلتا ہے۔۔۔اور یہی ہمارے کامیابی کا راز ہے۔۔۔
قارئین محترم۔۔۔
میں مزید بتایا چلوں کہ اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو میرٹ کو یقینی بنانا ہے۔

مختلف سِول اداروں میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تعیناتی حکومتِ وقت کی ضرورت اور خواہش پر کی جاتی ہے نہ کہ افواج کی سفارش پر۔ یہ تعنیاتی انکے وسیع تر تجربے، تعلیمی قابلیت، ایماندار ی اور ملک کی بے لوث خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے جس کا مقصد درست لوگوں کی درست جگہ تعیناتی ہے اور اسی سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
 یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ نوازشریف دور میں کی گئی تعیناتیوں کی تعداد عمران حکومت کے دور کی نسبت کہیں زیادہ تھیں۔

فوجی افسران کا ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں شمولیت اختیار کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 46 صدور میں سے 32 کا تعلق فوج سے رہا تھا۔ جبکہ 28 وزیر دفاع میں سے21 کا تعلق فوج سے تھا۔ فوجی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں جس کی آئینِ پاکستان میں کوئی ممانعت نہیں پھرِ چاہے وہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ہوں، لیفٹینٹ جنرل عبدالقادر بلوچ ہوں کرنل خانزادہ شہید یا کوئی اور۔

ذوالفقار علی بھٹو جیسے منجھے ہوئے سیاست دان نے سول سروسز میں فوجی افسران کو شامل کرنے کی بنیاد رکھی۔ اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کے 1991 کے آرڈر کے مطابق سول سروسز میں فوجی افسران کے لئے خصوصی کوٹہ قائم کیاگیا۔ جس کے تحت پاکستان پولیس، ڈی ایم جی اور فارن سروسز میں فوجی افسران کی مخصوص تعداد کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے گئے۔

جبکہ ان افسران کے لئے قوائد یا ضوابط میں نہ کوئی نرمی برتی گئی نہ کوئی تبدیلی لائی گئی۔ ہرسال 500 میں سے صرف 6 فوجی ہی سول سروسز اکیڈمی کو جوائن کرتے ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں صرف 120 فوجی افسران ہی نے سول سروسز میں شمولیت اختیار کی۔ جنہوں نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا اور منفرد مقام حاصل کیا۔عمومی طور پر ریٹائرڈ عسکری حکام کی سول اداروں میں تعیناتی کوئی انوکھی بات نہیں۔

پاکستان کے تقریباً 114سفیران اس وقت دنیا کے کونے کونے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 5 سفیران ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ جو ان ممالک میں اپنے وسیع تجربے کی بنیاد ہمارے دفاعی تعاون کو یقینی بنانے میں ہمہ وقت سرگرم ہیں۔کچھ ناعاقبت اندیش اس بات پر بھی بضد ہیں کہ فوجی ادارے جیسے ایف سی، اینٹی نارکوٹس فورس، ائرپورٹ سیکورٹی فورس،ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کے سربراہ بھی غیر فوجی ہونے چاہیں۔

جو کہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔فوجی تربیت میں کھیلوں کا ہمیشہ ایک منفر د مقام رہا ہے۔ فوج نے گزشتہ کئی سالوں میں بے تحاشہ نامور کھلاڑیوں کو تیار کیا جنہوں نے ملک و قوم کی ترقی اور اپنے پرچم کی سربلندی کے لیے بہت سارے اعزازات اپنے نام کیے۔ جیسے کہ ہاکی، ایتھلیٹکس، تیر اندازی، باسکٹ بال، تیراکی، فٹ بال، سکواش، کرکٹ، باکسنگ اور کبڈی سرفہرست ہیں۔
 ذرا سوچیں! یہ بحالی عروج کا دور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :