معذور افراد کی سماجی شمولیت ممکن ہے

جمعہ 27 نومبر 2020

Tariq Ullah

طارق اللہ

1973 کا آئینِ پاکستان معذورافراد کی فلاح و بہبود کے حوالے سے تقریباََخاموش ہے۔ 12مارچ 1996 میں پاکستان نے حقوق و قوانین پر دستخط کیے۔اگست  2011 میں پاکستان نے عالمی معاہدہ برائے افراد باہم معذوری کے حقوق پر دستخط کیے۔خواتین کی بات کی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ معذور صنف نازک کو مرد کے مقابلے میں بے پناہ مسائل درپیش ہیں۔ آرٹیکل 6 خواتین کی معذوری کے متعلق ہے۔

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام ارکان معاہدہ خواتین کے خلاف کیے جانے والے امتیازی سلوک کے بارے میں آگاہ ہیں اور اس کے خاتمے کے لئے کام کریں گے تاکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے استفادہ کر سکیں اور ایک خود مختار زندگی گزار سکیں۔(2) تمام ارکان معاہدہِ خواتین باہم معذوری کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اور عملی اقدامات کریں گے۔

(جاری ہے)

معذورخواتین دوہری پسماندگی کا شکار ہیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ صحت، تعلیم، ہنر اور روزگار جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔معذور افراد کے لئے نس بندی سے جڑی قانون سازی خواتین باہم معذوری کے تولیدی عمل کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے – معذور خواتین کے جنسی اور تولیدی حقوق اکثر رد کیے جاتے ہیں – انہیں اسقاط حمل اور نس بندی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔

معذوری سے جڑی معلومات کی غیر آگاہی کی وجہ سے انہیں والدین بننے کی صلاحیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا – تولیدی صحت کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اکثر معالج کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ان کے معذوری سے جڑے مخصوص حالات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ کاروباری مراکز میں بھی معذور خواتین کو مناسب اور جائز طریقے سے شامل نہیں کیا جاتا اور ان کے حقوق تلف کیے جاتے ہیں اور انکی معذوری کی وجہ سے انہیں جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔

صنف اور معذوری کی وجہ سے امتیازی سلوک خواتین میں شرح خواندگی میں کمی کا باعث ہے۔
معذوری ترقی سے جڑا مسئلہ بھی ہے کیونکہ معذوری غربت پر اثرانداز ہوتی ہے اور غربت کی وجہ سے معذوری بڑھتی ہے۔ موجودہ اندراج و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر آٹھ میں سے ایک فرد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ پاکستان میں افراد باہم معذوری کا شمار زیادہ تر بے بس لوگوں میں ہوتا ہے۔

معذور افراد کو تعلیمی، تربیتی مہارتوں اور روزمرہ کی زندگی گزارنے میں بے حد مشکلات کا سامنا ہے۔معذور افراد کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات تکلیف دہ ہیں۔ یہ رکاوٹیں عام طور پر وہیل چیئرز کے استعمال کے لئے ڈھلوانی راستے کا نہ ہونا، بریل کا نہ جاننا، بصارت سے محروم افراد کے لئے آواز میں ریکارڈ کی گئی معلومات کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی رکاوٹیں ہیں جو کہ معذور افراد کی خود مختارانہ، آزادانہ زندگی کو درپیش ہیں جن میں سب سے اہم معذوری سے جڑا تعصب ہے اور یہی رکاوٹیں کامیابی کے حصول سے جڑی توقعات کو پورا نہیں ہونے دیتیں۔

آپ نے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو صحت مند زندگی گزار رہے ہوتے ہیں پھر اچانک کسی حادثے کی نذر ہوجاتے ہیں، ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور کچھ کے مقدر میں لکھی گئی عمر بھر کی معذوری زاد راہ بن جاتی ہے۔
معذورایک ایسا لفظ ہے جو کانوں میں پڑتے ہی پورے بدن میں لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے۔

زبان پر ہمدردانہ الفاظ کے ساتھ اس حالت کے خوف کی وجہ سے استغفار کی تسبیح شروع ہو جاتی ہے۔مگر اگلے ہی لمحے جب یہ لوگ نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو ہمارا دل و دماغ ان کے بارے میں مزید سوچنے پر آمادہ نہیں ہو پاتا۔
معذور افراد معاشرے کے ڈس ایبل افراد نہیں ہوتے بلکہ انہیں ہمارے رویے ڈس ایبل کر دیتے ہیں۔معذوری کی حالت میں اگر گھر کا ماحول اچھا مل جائے تو انسان بیماری سے مقابلہ کرلیتا ہے اگر ماحول اس کے برعکس ہو تو پھر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور جسمانی معذوری کے ساتھ ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یعنی پھر جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی معذوری سے دوچار ہونا پڑنا ہے۔

۔ والدین اپنا خون پسینہ ایک کرکے انھیں تعلیم دلواتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر معاشی اعتبار سے خود کفیل ہوں اور والدین کی جسمانی مشقت کا کچھ صلہ ملے لیکن حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے معذور افراد ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آئین میں معذور افراد کا کوٹہ دو فیصد ہے لیکن پھر بھی انہیں ملازمتیں نہیں ملتیں اور اگر وہ میرٹ پر پورے اتر بھی جائیں تب بھی انھیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔


پاکستان میں جس طرح معذور کو دھکے مار مار کر ان کے جائز حقوق سے پیچھے ہٹا یا جاتا ہے اور انہیں ہر مقام پر رسوا کر کے سبق سیکھاتا جاتا ہے وہ کربناک ہے۔ حیدر آباد ہو یا سکھر، کشمیر ہوپنجاب، خیبر پختون خواہ ہو یا بلوچستان،غیر ہر جگہ پرجسمانی و ذہنی معذور افراد کی عزت و ناموس کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے اورجب بھی یہ لوگ احتجاج کرتے ہیں طفل تسلیا ں دے کر رخصت کر دیا جا تا ہے۔

معذور افراد اس ملک اتنی بڑی تعداد ہیں کہ یہ کسی ایک حکومت کے بننے یا رہ جانے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر معذور افراد تمام ایکا کر لیں کہ اب کی بار ووٹ ہم اس پارٹی کو دیں جو ہمارے دیرینہ معاملات حل کرے تو پھر پارٹیوں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔معاشرے کی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے سے جسمانی و ذہنی حوالے سے کم تر کو خود پر فوقیت دیں اور ہر ان کے درد کو اپنا درد سمجھیں۔

معذور افراد کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اگر پوری کی پوری وزارت بھی بنادی جائے تو بھی کوئی مضائقہنہیں ہو گا۔
میں نے دیکھا ہے بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بے روزگار ہیں جس کی وجہ سے وہ مانگنے اور سوال کرنے پر مجبورہوگئے ہیں۔ اگر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور تمام پبلک مراکز میں ریمپس کی سہولت کو لازمی قرار دیا جائے معذور افراد کے لیے کافی آسانی ہو جائے۔

ایک اور المیہ بھی ہے کہ یہاں پر تعلیمی کاروبار کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری مافیا بھی کسی سے کم نہیں جنہیں سوائے اپنی ذات کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سرکاری اداروں میں اگر کوئی بلڈنگ بناتے ہوئے سیڑھیاں بنائی جاتیں ہیں تو ریمپس کیوں نہیں بنائے جاتے؟ مجھے مختلف ہاسپٹلز جانے کا بھی اتفاق ہوا تو دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ چلنے پھرنے سے معذور افراد کے ڈاکٹر صاحبان اوپر والی منزل پر براجمان ہوتے ہیں ان تک جانے کے لئے سیڑھیاں عبور کرنی پڑتیں ہیں، ہسپتال میں تو ریمپس کی سہولت ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ جسمانی معذوری کے افراد کے چیک اپ کے لئے ڈاکٹرز کو گراؤنڈ فلور پر کمرے دینے چاہیں۔


اگر سارے انسان ایک جیسے ہیں تو معذور افراد کے لیے صحت مند انسان جیسی سہولیات کیوں نہیں؟ ہمارے ملک پاکستان کی دس سے پندرہ فیصد تک آبادی معذورافراد پر مشتمل ہے، یہ صرف میری ہی نہیں بلکہ ان سب کی آواز ہے جو اس درد ناک اذیت میں مبتلا ہیں۔میری یہ آواز ان افراد کے لیے بھی قابل فکر ہے جو ذہنی معذور ہیں۔جو تندرست و توانا ہوتے ہوئے بھی فکری معذوری کا شکار ہی۔

ہر قوم کا ایک وقار ہوتا ہے اور ہر مذہب نظریات کی بناء پر اپنے ماننے والوں کو کسی نہ کسی حد تک ایک باقاعدہ نظامِ زندگی فراہم کرتا ہے جس میں صرف انتظامی امور کا ہی احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ معاشرتی اقدار کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔اگر ہم اسلام کا مطالعہ کریں تو اخلاقیات اور انسانیت کے چیپٹرز میں انفرادی و معاشرتی سطح پر انسانی جذبات کی قدر کرنا اور احساس کمتری سے نکال کر باوقار زندگی گزار نے کے لیے کوشش کرنا اور معذورں کو آمادہ کرنا مستحسن عمل ہے۔


معذور افراد کے دستیاب اعداد شمار اور اس میں مسلسل اضافے کی تعداد کافی پریشان کن ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر10 میں سے 1 شخص معذور ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 60کروڑ افراد جسمانی طور پر معذور ہیں۔جن میں سے 80فیصد کا تعلق ترقی پذیرممالک سے ہے۔ دنیا کی کْل آبادی کا تقریباً 15 فیصد یعنی ایک ارب افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔


ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی66 فیصد آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جو دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ صرف 28 فیصد تعلیم یافتہ اور 14 فیصد روزگار سے منسلک ہیں جبکہ 70 فیصد اپنے خاندان پر معاشی لحاظ سے انحصار کرتے ہیں – 49 فیصد معذوریاں کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے ہیں۔ 35 فیصد پیدائشی معذوریوں اور 14 فیصد افراد حادثوں کی وجہ سے معذور ی کا شکار ہوئے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت معذور افراد کی آبادی 32 لاکھ سے زیادہ ہے۔ایک سروے کے مطابق اسلام آباد اور گردونواح میں 8,434 افراد مختلف اعضاء کی محرومی کا شکار ہیں۔ ان میں نابینا افراد کی تعدادکا تناسب 9.22، سماعت سے محروم افراد کی تعداد 29.89 ہے۔ ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 12.46، ایسے افراد جو مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں ان کی تعداد کا تناسب 4.55 ہے۔

بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں پر معذور افراد کی کل تعداد 1,46,421 ہے۔ جس میں بینائی سے محروم کی تعداد کا تناسب 8.42 ہے۔ قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تعداد کا تناسب 5.24 ہے۔
اپاہج افراد کی تعداد کا تناسب 14.81، ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 5.61 فیصد، دیگر معذوریوں کے شکار افراد کی تعداد کا تناسب 54.96 اور مختلف ڈس ایبلڈ افراد کی تعداد کا تناسب 6.35 فیصد ہے۔

صوبہ سندھ میں کل 9,29,400 افراد معذوری کا شکار ہیں۔جن میں 7.48 افراد بینائی سے، 6.18 افراد قوتِ سماعت و گویائی سے، اپاہج افراد کی تعداد کا تناسب 10.56، ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 7.87، مختلف و دیگر ڈسایبلیٹی کے شکار افراد کی تعداد، مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 7.45، مختلف ڈس ایبلیٹیز کے شکار افراد کی تعداد کا تناسب 8.92 اور دیگر کی تعداد کا تناسب 53.29 فیصد ہے۔


پنجاب کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں! یہاں پر نابینا افراد کی تعداد کا تناسب 8.48، قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تعداد کا تناسب 8.17، اپاہج افراد کی تعداد کا تناسب 20.83، ذہنی مفلوج افراد کی تعداد کا تناسب 7.87، مختلف و دیگر معذوریوں کے شکار افراد افراد کی تعداد کا تناسب 8.07 اور 39.84 ہے۔ اور خیبرپختونخوا میں کل7,52,375 افراد مختلف معذوریوں کا شکار ہیں۔

برنش کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کوقومی دھارے میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے 4.9%سے 6.3% تک نقصان پہنچتا ہے جو کہ کس قدر ا چھنبے کی بات ہے کہ کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔
پاکستان کے طول وعرض میں کام کرنے والی بیسیوں فلاحی تنظیمیں انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔یہ بات ادارک سے خالی نہیں ہے کہ حکومتوں کا کام صحت، تعلیم، پانی اور روزگار سمیت تمام بنیادی سہولیات کو یقینی بنانا ہے اورارض وطن کے باسیوں کے لیے ڈیویلپمنٹ اورانفراسٹرکچرمہیا کرنا ہے۔

مگر تشویشناک صورتحال ہے یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کا خیا ل بھی نجی فلاحی تنظیمیں یا بین الاقوامی غیر منافع بخش ادارے کر رہے ہیں۔پاکستان جیسا خوبصورت، طاقتور، زرخیز اور محل وقوع کے اعتبار سے مثالی کوئی ملک نہیں ہے۔ارض پاک کا تقریبا ہر گوشہ مظلوم ہے۔مگرکچھ خیراتی ادارے ہیں جو مایوسی و ظلم کے گھٹاٹوپ نظام میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

یو این کے کچھ ادارے،اسلامک ریلیف، الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان،ہیومن اپیل، قطر چیرٹی،ریڈ فاؤنڈیشن، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، ایدھی ہومز،انجمن فیض الاسلام،صراط الجنہ ٹرسٹ وغیرہ مل کر خاص طور پر معذور افراد کی تعلیم، صحت، مصنوعی اعضاء جیسی بنادی سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔2017میں فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن نے 2,700 وہیل چیئر زمعذور افراد میں تقسیم کی ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈیویلپمنٹ بھی ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں مصنوعی اعضاء معذور افراد میں تقسیم کرتی ہے۔وہیل چیئر فاؤنڈیشن بھی وہیل چیئر ز تقسیم کرتی ہے۔ اس طرح کی دوسرے بھی ادارے ہیں جو اپنے حصے کا دیے جلاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :