
بڑھتی ہوئی آبادی اور ہماری زمہ داریاں
پیر 12 جولائی 2021

طارق زمان
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 11 جولائی کو آبادی کا دن منایا جاتا ہے۔ مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار پر غور و خوض کیا جاتا ہے۔ شرکاء کو مستقبل میں پھٹنے والے آبادی بم کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
سرکاری طور پر عوام کو حقائق بتلائے جاتے ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ خطیر فنڈز مختص کرنے کا عندیہ بھی دیا جاتا ہے لیکن 12 جولائی کے اخبارات میں شہ سرخیوں کی اشاعت کے ساتھ ہی آئندہ سال کے گیارہ جولائی تک حکومت ، سرکاری و غیر سرکاری ادارے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
صرف اس شعبے میں کام کرنے والے محکمے اور غیر سرکاری تنظیمیں دستیاب محدود وسائل میں رہتے ہوئے معمول کے مطابق سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔اگر سالانہ 2.4 فیصد کی شرح کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو عنقریب فیصل آباد جتنے چند بڑے شہر آباد کرنے پڑیں گے۔ پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا ہوگا۔ ہماری زرخیز زرعی زمینوں میں زراعت کے بجائے رہائشی بستیاں آباد ہوں گے۔ بچے خوارک کی کمی کا شکار ہوکر معذور و لاغر ہوں گے۔ بے روزگاری اور لاقانونیت کا عفریت قابو سے باہر ہوگا۔ توانائی کی شدید کمی کے ساتھ صوتی اور ماحولیاتی آلودگی کے گھٹاٹوپ اندھیرے ڈیرے ڈال لیں گے اور معیار زندگی کی تنزلی سمیت ایسے ایسے مسائل سر اٹھائیں گے جن پر قابو پانا ہمارے بس سے باہر ہوگا۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا شدہ مسائل اور دستیاب وسائل کو متوازن کرنے کے لیے سرکاری سطح پر 1965 سے خاندانی منصوبہ بندی مہم کا آغاز کیا گیا لیکن بد قسمتی سے دیگر آگاہی مہمات کی طرح خاندانی منصوبہ بندی کو بھی شریعت اور فطرت کے خلاف قرار دے کر متنازعہ بنا دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پیدا ہونے والا ابہام آج بھی اکثریتی شہریوں کے اذہان میں موجود ہے حالانکہ سرکاری ادارے متعدد بار اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے اعلان کر چکے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچے کسی مخصوص تعداد میں پیدا کیے جائیں یا آبادی کنٹرول کرنے کی غرض سے حمل ضائع کیے جائیں بلکہ سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس بات کی آگاہی دیتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں اتنا وقفہ رکھا جائے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر بچے کی مدت رضاعت پوری ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی بہترین پرورش ، تعلیم و تربیت اور نشوونما ہوسکے تاکہ وہ معاشرے کا کار آمد شہری بن پائے اور زچہ و بچہ کی صحت و خوارک کا بھی مناسب خیال رکھا جا سکے۔ اس کے باوجود بعض عناصر خاندانی منصوبہ بندی کو یہودی ایجنڈا اور امت مسلمہ کی تعداد کم کرنے کی سازش قرار دے کر اسے مسترد کرتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی اسلامی ملک ایران اور بنگلہ دیش نے بڑھتی ہوئی آبادی کے مضر اثرات کا ادراک کرتے ہوئے بہترین انداز میں مسئلہ پر قابو پالیا ہے وہاں بھی مسلمان آباد ہیں کسی نے خاندانی منصوبہ بندی کو یہودیوں کی سازش قرار نہیں دیا بلکہ ان کے جید علمائے کرام نے خاندانی منصوبہ بندی کو فتاویٰ جات کے ذریعے جائز قرار دے کر عوام کے اذہان سے تحفظات و خدشات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بہرحال اب پاکستان میں بھی محکمہ بہبودِ آبادی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے تشکیل دی جانے والی ٹاسک فورسز کے سفارشات کی روشنی میں خاندانی منصوبہ بندی کی آگاہی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے علمائے کرام و مفتیان عظام کی خدمات حاصل کی ہیں۔ حالیہ دنوں محکمہ بہبودِ آبادی خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام منعقدہ تربیتی ورکشاپس برئے علمائے کرام کے شرکاء سے خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق ان کا نقطئہ نظر جاننے کا موقع ملا۔ علمائے کرام کا کہنا تھا کہ اس سے قبل حکومت کی جانب سے علمائے کرام کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ریاستی بیانیے سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا جس کہ وجہ سے بہت ساری غلط فہمیوں اور بدگمانیوں نے جنم لیا ہے لیکن خیبر پختونخوا حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ابہام، اشکالات اور تحفظات دور کیے ہیں۔ علمائے کرام نے کہا کہ مدت رضاعت کی تکمیل اور زچہ و بچہ کی صحت کی خاطر پچوں کی پیدائش میں وقفہ رکھنا ضروری اور جائز ہے۔ تاہم رزق کی تنگی کے خدشات کے پیش نظر ضبط تولید ناجائز اور غیر شرعی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سنجیدگی دکھائے اور خاندانی منصوبہ بندی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اسے اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ تمام طبقات باالخصوص مختلف مکاتب کے علمائے کرام اور آئمہ و خطباء کی خدمات و مشاورت حاصل کرکے آگاہی مہم کو مؤثر بنایا جائے۔خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔اسلامی تعلیمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے علمائے کرام کی مشاورت سے قانون سازی کرکے عملدرآمد کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ نوجوانوں کو شادی سے قبل ہی کنبے کی تشکیل اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تعلیمات اور آگاہی فراہم کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی مرتب کی جائے۔
ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے باشعور شہری اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی مہم کا حصہ بنیں کم تعلیم یافتہ لوگوں کو شعور و آگاہی دینے میں اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ اہم سیاسی و سماجی شخصیات اپنے فالورز کے لیے خصوصی آگاہی پیغامات جاری کرکے عوام کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف مبذول کروائیں۔ قوم کے کل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں آج اپنی زمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
طارق زمان کے کالمز
-
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اچھے دنوں کی امید
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
گالم گلوچ ونگ
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
افغانستان پر طالبان کا قبضہ اور مغربی میڈیا کی رپورٹنگ
بدھ 1 ستمبر 2021
-
ہمارے ہیں حسینؓ
ہفتہ 21 اگست 2021
-
14 اگست جشن کا نہیں ، تجدید عہد کا دن ہے
ہفتہ 14 اگست 2021
-
سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے
جمعرات 5 اگست 2021
-
کیا یہ مسلم معاشرہ ہے؟
بدھ 28 جولائی 2021
-
یکے بعد دیگرے متشدد واقعات، باعث تشویش صورتحال
پیر 19 جولائی 2021
طارق زمان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.