پاکستان میں ٹوارزم انڈسٹری کی تباہی

پیر 6 جولائی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

میں نے پچھلے دنوں وزیرِاعظم جناب عمران خان صاحب کی طرف سے چند نیشنل پارکس اور سیاحت کے منصوبوں کے افتتاح کی خبر ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھی جن میں ایک راول ڈیم اسلام آباد کے اردگرد نیشنل پارک اور سیاحتی مقام بنانے سے متعلق پراجیکٹ تھا۔اِسکے ساتھ ہی حکومتی وزراء کی طرف سے شمالی علاقہ جات میں PTDCکے چند ہوٹلز کی بندش سے متعلق خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔

الیکشن کمپین کے دوران عمران خان صحب کے فلیگ شپ نعروں اوروعدوں میں سے ایک یہ بھی تھا جب خان صحب کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی ٹوارزم انڈسٹری اربوں روپے کما کر دے سکتی ہے اور ابھی بھی ٹوارزم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دار خان صحب نے سابقہ حکمرانوں اور پچھلی حکومتوں کو ہی دے کر بری ذمہ ہو گئے ہیں! اگرخان صاحب نے تھوڑی سی بھی تحقیق کی ہوتی تو انہیں پتہ چل جاتا کہ دراصل حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

(جاری ہے)


سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے ریا ست کے باقی شعبوں کا درست ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ ملک کے باقی شعبے تو روبہ زوال ہوں اور آپ کا وزیرِاعظم سیاحت پر لیکچر دے رہا ہو۔سیاحت انڈسٹری تب پروان چڑھتی ہے جب ملک میں امن وامان ہو، ریاست کی رِٹ قائم ہو، ملک میں بجلی ،پانی، گیس، ریلوے لائنوں اور سڑکوں کا مناسب انتظام ہو۔

سیاحت کے لیے سیاحوں کو سیاحتی مقامات تک رسائی ، بنیادی ضروریات اور امنِ وامان فراہم کرنا ریاست کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے۔اگرآپ کے چند بڑے شہر مثلاً کراچی، لاہور، فیصل آباد ہی پر امن نہ ہوں اور وہاں پاکستان سٹاک ایکسچنیج پر حملے جیسے واقعات ہورہے ہوں ، جہاز آپکے گر رہے ہوں، ٹرینیں ٓپکی ٹکرارہی ہوں، تو پھر آپ قطعاً بھول جائیں کہ کوئی بیرونِ ملک سے پاکستان میں سیاحت کے لیے آئے گا یا کسی قسم کی لوکل ٹوارزم انڈسٹری بھی پروموٹ ہو پائی گی۔


دوسرایہ کہ سال 2020ء کرائسسز اور recessionکا سال ہے اِس سال کے پہلے چھ مہینے پوری دنیا بند رہی ہے، امیگریشن اور ویزہ پالیسیاں تبدیل ہو رہی ہیں، ائیر لائن انڈسٹری تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے اور سیاحت سے وابستہ شعبے مثلاً ہوٹل انڈسٹری بھی تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔ اِس وقت لوگ صرف اورصرف بنیادی ضروریات پر خرچ کر رہے ہیں۔اِس کرائسسز اور ریسیشن کے وقت پر اگر وزیرِاعظم صاحب کوئی اس طرح کا ambitiousپراجیکٹ شروع کردیں تو یہ صرف اور صرف وقت ،پیسہ اور وسائل کا ضیاع ہے۔

بیرونِ ممالک کی حکومتیں اِس وقت صرف پبلک ہیلتھ، انڈسٹری کی بحالی اور گورننس کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہیں۔وہ ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے لوگوں کو بیماری سے کیسے بچانا ہے؟ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگ صحت مند اور کام کاج کے قابل ہونگے تو تب ہی ہم اِس سے ٹیکس کی آمدن لے کر ملک چلا پائیں گے، جبکہ ہماری پاکستانی حکومت کی ترجیحات یکسر مختلف ہیں۔


ٹوارزم انڈسٹری کو پروموٹ کرنے میں دوسرااہم کردار ایویشن انڈسٹری کا ہوتا ہے۔دوبئی ، یو اے ای اور قطر نے ایمریٹس، اتحاد اور قطر ائیرلائن کے نام سے دنیا کی بہترین ائیر لائن کمپنیاں بنا رکھی ہیں جو پوری دنیا کے مختلف ممالک میں آپریٹ ہوتی ہیں۔اسکے ساتھ ہی اِن ریاستوں نے اپنا انفراسٹرکچر بہتر بنایا،ورلڈ کلاس عمارتیں بنائیں، اور اپنی ویزہ پالیسی ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں اور سیاحت کے لیے نرم کی۔

اب ہوتا یہ ہے کہ قطر اور ایمریٹس ائیر لائن پر سفر کرتے ہوئے آپ قطر یا دوبئی کا 48گھنٹوں کا سیاحتی ویزہ بھی لے سکتے ہیں اور شہر گھوم پھر سکتے ہیں۔میں نے خود یہ ہی آفر لیکر دوبئی اور قطر کی سیر کی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ اگر حکومتی ارباب واختیار واقعی ہی سنجیدہ ہیں توآپ ملائیشیا کی ائیر ایشیا اور سنگاپور کی Scoot Airکی طرز پر کم بجٹ ائیر لائن بنا سکتے ہیں۔

ائیر ایشیا اور سکوٹ ائیر لائن ایک طرف تو آسٹریلیا و نیوزی لینڈ اور دوسری طرف امریکہ اور کینیڈا کے لیے آپریٹ ہوکر وہاں سے سیاحوں کو ملائیشیا اور سنگاپور کیطرف attractکرتی ہیں۔یہ کم بجٹ ائیر لائنز مسافروں کوصرف 6-7کلوگرام ہیندکیری کی اجازت دیتی ہیں۔جبکہ لگج (سامان) کیلئے مسافروں کو رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔یہ ائیر لائنز بڑی ہی محفوظ ہونے کیساتھ ساتھ سیاحوں کو جہازوں میں بھر بھر کر سیاحت کے لیے لاتی ہیں۔

اِسی طرح یورپ میں بھی کم بجٹ ائیر لائینز بڑی ہی کامیابی سے چل رہی ہیں۔ جبکہ ہم اپنی قومی ائیر لائن کو دنیا کیلئے محفوظ نہیں بناپائے اور حالیہ پالٹوں کی مشتبہ رپورٹ نے پوری دنیا میں بدنامی کیساتھ ساتھ ملک کی ایویشن انڈسٹری کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ملک میں انٹرنیشنل ٹوارزم کو پروموٹ کرنے کیلئے ملک میں مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کو کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

سیاح عام طور پر کسی بھی ملک میں سیروتفریح ، کوالٹی وقت گزارنے اوراپنے آپ کو ریلیکس کرنے کیلئے جاتے ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہوسکتاکو جناب طاہرالقادری صاحب یا کسی اور مذہبی جماعت کی طرف سے شہروں میں دھرنے اور ریلیاں نکل رہی ہوں اور پھر ساتھ ہی آپ ملک میں سیاحت کو پروموٹ کرنے کی باتیں بھی کر رہے ہوں۔میں ملائیشیا کوالالمپور میں نیشنل مسجد نگارہ اورمسجد جمیک میں گیا جہاں پر غیر ملکی اور غیر مسلم خواتین عبایہ پہن کر اِن مساجد میں تصاویر بنوارہی تھیں اور مساجد کے صحن میں گھوم پھر رہی تھیں۔

اِن مساجد کا ٹوارزم کو شعبہ اِن خواتین کو مساجد کی تاریخ اورتزین و آرائش کے بارے میں معلومات دے رہا تھا اور اِس طرح ملائیشیا اور اسلام کا ایک سافٹ ایمیج پروان چڑھا رہا تھا۔ لیکن ہماری سوسائٹی اور ہمارا معاشرہ سیاحت کی فروغ کیلئے اِس طرح کی کسی چیز کی اجازت نہیں دے گا۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے افراد اور نوجوان نسل کے رویے اس قدر سنجیدہ ہیں کہ پاکستانی خواتین بِلاخوف و خطر سیاحتی مقامات کی سیر کر سکیں۔

کیا ہمارے مرد حضرات خواتین کو اتنی پرسنل سپیس دیتے ہیں کہ وہ تفریحی و تاریخی مقامات کا رُخ کر سکیں۔ ہمارے تو بازاروں، سکولوں اور کالجوں کے باہرخواتین پر آوازیں کسنے اور بد تمیزی کے واقعات ہو جاتے ہیں، تو پھر ہم اپنے معاشرے سے غیر ملکی خواتین کی عزت کے حوالے سے کِن کِن خدشات کی توقع کر سکتے ہیں۔
ملک کی لوکل ٹوارزم انڈسٹری کا حال کیسا ہے؟پورے ملک کی 22کڑوڑ آبادی بنیادی ضروریات کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہے، لوگ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوڑ رہے ہیں اور بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی بڑی مشکل سے پوری ہو پارہی ہیں، تو پھر ہم کس طرح ملک میں ٹوارزم کے فروغ کی توقع کر سکتے ہیں۔

ملک میں لوگوں کو کھانے کو پہلے کچھ ملے گا تو پھر سیاحت وتفریح اور باقی چیزوں کی بات ہوگی۔
انٹرنیشنل ٹوارزم کو پروموٹ کرنے کیلئے ملک میں انٹربیشنل سٹینڈرڈ ہوٹلز، اور کم بجٹ ہوٹلز یا ہوسٹلز کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔یہ ہوٹلز اور ہوسٹلز ریگولیٹ ہونے کی ضرورت بھی ہوتی ہے جہاں کو ئی غیر اخلاقی یا غیر قانونی واقعہ وقوع پذیر نہ ہوپائے۔

اِس مقصد کیلئے پولیس کو ایماندار، فرض شناس اور فعال کرنا پڑتا ہے،جبکہ درحقیقت ہماری پولیس اور لوکل ایڈمنسٹریشن کی حالت اِس کے بالکل برعکس ہے۔اس لیے ایک بہتر ہوٹل انڈسٹری کے بغیر سیاحت کا فروغ ممکن نہیں!
ملکوں میں سیاحت کو فروغ دینے میں بیرونِ ملک سفارتخانوں اور کونسل خانوں کا بڑا کلیدی کردار ہوتا ہے، جو بیرونِ ملک میں مختلف میلے، کلچرل فیسٹیول اور دیگر سرگرمیاں وقتاً فوقتاً منعقد کرواتے رہتے ہیں تاکہ اِن پردیسی ممالک کے لوگوں میں ا پنے ملک سے متعلق سیاحت کوفروغ دیا جا سکے۔

سفارتخانے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پر فارمنس اور فوڈ فیسٹیول بھی منعقد کراتے رہتے ہیں۔میرے چائنہ میں 3.5سالوں کے دوران اِس طرح کی کوئی قابلِ ذکر مثال دیکھنے میں نہیں آئی۔اِسکے باوجود کہ میں چائنہ کے ایک بڑے شہر میں رہتا تھاجہاں پاکستانی قونصل خانہ بھی موجود تھا، لیکن اِسکے باوجود شاید ہی ہمارا کونسل خانہ اِس طرح سے سیاحت کے فروغ کا کام سرانجام دے پارہا ہو۔

وہ صرف اپنی سرکاری نوکری انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔
ٹوارزم اور سیاحت کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار اِس ملک کا ہمسایہ ممالک کیساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات پر ہوتا ہے۔اگرآپ کے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات اچھے ہوں تو یہ چیز اِن ممالک میں مجوعی طور پر سیاحت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔مثلاً جو سیاح سنگاپور سیاحت کیلئے جاتا ہے وہ ساتھ ہی ملائیشیا یا انڈونیشیا بھی وزٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اسی طرح جو سیاح ملائیشیا جاتا ہے اُسکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اِس ٹرپ میں ملائیشیا کیساتھ ساتھ انڈونیشیا، تھائی لینڈ بھی وزٹ کر لے کیونکہ ملائیشیا سے سنگاپور، انڈونیشیا، بالی، اور تھائی لینڈ جانا نہایت آسان ہے اور ٹرانسپورٹیشن کے بہترین اور سستے ذرائع میسر ہیں۔

اِسی طرح تھائی لینڈ جانیوالے سیاح ساتھ ہی ویتنام یا فلپائن بھی وزٹ کر آتے ہیں۔اِن سب ممالک کے آپس میں دوستانہ تعلقات ہیں اور ایکدوسرے کیلئے سیاحت میں آسانیاں بھی پیداکرتے ہیں۔جبکہ اِسکے برعکس ہمارے ہمسایوں کیساتھ تعلقات آپکے سامنے ہیں۔ دنیا میں ہر سال بھارت میں ہزراروں ،لاکھوں سیاح تاج محل،گواء اور بمبئی وزٹ کیلئے آتے ہیں ، اگردونوں ہمسایہ ممالک کے مابین اچھے تعلقات ہوں تو پاکستان اِن میں سے آدھے سیاحوں کو attractکرسکتا ہے۔

لیکن بات یہ ہے کہ ہماری ملکی انا کے آگے یہ کرے کون!یہ بات آپ بھول جائیں کہ بیرونِ ملک سے شاید ہی کوئی سیاح صرف پاکستان دیکھنے کیلئے آئے، کیونکہ پاکستان سے کہیں زیادہ خوبصورت ، سیاحتی سہولیات سے بھرپور جگہیں اور محفوظ ممالک سیاحوں کیلئے میسر ہیں، اِس لیے وہ اُن جگہوں کو چھوڑ کر پاکستان سیاحت کے لیے کیوں کر آئیں گے۔اس لیے اس تحریر میں درج کردہ چند خدشات کو ٹھیک کیے بغیر آپ پاکستان میں اگلے چند سالوں کے لیے سیاحت کو بھول جائیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :