ملک میں ذہانت اور ٹیلنٹ کی بے قدری

ہفتہ 25 جولائی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے دنوں مجھے یوٹیوب پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں جناب پروفیسر ڈاکٹر ہود بھائی صاحب ایف سی کالج میں نوکری سے برخاست ہونے کی افسوسناک کہانی سُنا رہے تھے۔پروفیسر ہود بھائی کو پچھلے دنوں ایف سی کالج سے برخاست کردیا گیا۔کرونا وبا(COVID-19)کے دوران پاکستانی یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز شروع کردی تھیں جس کے بعد اساتذہ کرام اور پروفیسرز حضرات زوم ایپ اور دیگر ایپز کے ذریعے آن لائن لیکچرز دیا کرتے تھے۔

پروفیسرہود بھائی بھی اِسی طرح اپنے طلباء کو آن لائن لیکچردیا کرتے تھے اور اپنے لیکچرز کی recordedوڈیو بھی اپنے سٹوڈنٹس کیساتھ شئیر کیا کرتے تھے۔ مذید پروفیسر صاحب نے ایف سی کالج کے وائس چانسلر اور ایچ ای سی کے چیئرمین کو بھی یہ تجویز دی کہ آپ لوگ یونیوسٹیز کے پروفیسرز کو پابند کریں کہ وہ اپنے لیکچرز کی وڈیوزاور تدریسی مواد کو یونیورسٹی کے ڈیٹا بیس پر جمع کروایا کریں جس سے باقی طلباء اور جونیئر ٹیچرز مستفید ہو سکیں اور یہ کہ تعلیمی معیار پر بھی ایک طرح کا check & balanceرکھا جا سکے کہ پروفیسرز اور ٹیچرز حضرات طلبا ء کو کیا پڑھا رہے ہیں؟ یہ ایک بہت ہی مناسب ، قابلِ عمل اور مفید تجویز تھی جس پر بڑی آسانی کیساتھ عمل کروایا جا سکتا تھااور ملک کی یونیورسٹیوں میں تعلیمی معیار کو جانچا اور بہتر بنایا جا سکتا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن دوسری بہت سی اچھی تجاویز کیطرح یہ تجویز بھی میرے ملک کے باسیوں کو پسند نہیں آئی اور یکسر نظرانداز کر دی گئی۔ جبکہ اِس معاملے کے کچھ عرصے بعد پروفیسر ہود بھائی کے طلباء نے ایف سی کالج کے شعبہ طبعیات (فزکس)کے بعض اساتذہ کے نوٹس اور لیکچرز ہود بھائی صاحب کیساتھ شئیر کیے۔ جس پر پروفیسرصاحب بڑے حیران اور پریشان ہوئے کہ اُنکے دیگر کولیگز طلباء کو کیا پڑھا رہے ہیں؟پروفیسر ہود بھائی کو دیگر اساتذہ کا تدریسی مواد بڑا ہی غیر معیاری اورپُرانا لگا، جس پر مذید یہ کہ پروفیسر صاحب ایک مضمون کے نوٹس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اُس پر 1976ء کی مہریا تاریخ درج ہے اور یہ تدریسی مواد 2020ء میں طلباء کو پڑھایا جا رہا ہے۔

پروفیسر ہود بھائی نے جب اِس چیز کی شکایت ایف سی کالج کے وائس چانسلر سے کی تو اُنہوں نے اُس پر کوئی نوٹس نہیں لیا ، جس پر پروفیسر صاحب نے اِس غیر معیاری تعلیم کا بھانڈا ڈان نیوز کے ایک آرٹیکل میں پھوڑ دیا۔اِس واقعہ کے چند روز بعد پروفیسر ہود بھائی کو ایف سی کالج کیطرف سے اُنکے آخری کنٹریکٹ کی کاپی دی گئی اور مذید ملازمت میں توسیع دینے کے معاملے پر معذرت کرلی گئی۔

اب یہ ہمارے نظامِ تعلیم اور طریقہ تعلیم کا حال ہے جس میں بہتری کے خواھش مندایک شخص کی کوشش اور آواز کو کسطرح دبا دیا جاتا ہے؟ اور مختلف مافیاز اِس ملک میں کس قدر طاقتور ہیں کہ وہ اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو چپ کروادیتے ہیں؟سات سا ل سے زیادہ عرصہ اُستاد ہونے اور تقریباًپچھلے دس سالوں سے شعبہ اعلٰی تعلیم سے وابستہ ہونے کی حیثیت سے میں بخوبی واقف ہوں کہ ہمارے اعلٰی تعلیم کے شعبے میں کس طرح کی خامیاں ہیں، اوراِس کا حال بھی دیگر شعبہ تعلیم (پرائمری اور سکینڈری)کی طرح روبہ زوال کیوں ہے؟آپ یقین کیجیئے کہ ہمارے یونیورسٹی گریجویٹس کے پاس وہ سِکل سیٹ نہیں ہوتی جو کسی کمپنی ، مارکیٹ یا اپنا بزنس شروع کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ہمارے یونیورسٹی گریجویٹس میں analytical thinking پیدا نہیں ہوئی ہوتی ، اُسے محنت کرنے کی عادت نہیں ہوتی ۔

ہمارے گریجویٹس shortcutsاستعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے اساتذہ اور پروفیسرز نے اُنہیں محنت، ہنر مندی اور independent workکی عادت نہیں ڈالی ہوتی ،جسکی وجہ سے اُنہیں دربد کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اور نوکر ی کے حصول کیلئے رشوت اور ناجائز ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں۔
اب آپ ذرا دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیئے ، شاید آپکے علم میں ہو کہ پاکستان نے دنیا کے نامور سائنس دانوں اور ریسرچرز کی لِسٹ میں بڑے عرصے سے کوئی نام پیدا نہیں کیا ۔

ہم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو بڑے فخر سے پاکستان کا نوبل انعام یافتہ سائنسدان گردانتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نیو کلئیر فزکس کا سارا کام اِٹلی کی لیبارٹیوں میں کیاتھا۔ اُنکی پی ایچ ڈی بھی یو کے سے تھی۔ڈاکٹر صاحب کی صِرف ابتدائی تعلیم اور ابتدائی نوکری صِرف پاکستان سے تھی، لیکن اُنکی اصل تحقیق اور اصل کام مُلک سے باہر ہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اِس طرح کی ریسرچ کا کوئی سیٹ اپ اور سسٹم موجود نہیں تھا۔

دوسرا پاکستان میں لوگوں کا کام کرنے کا رویہ ، ذمہ داری اور مزاج بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں موجود زیادہ تر پاکستانی کام سے جی چُراتے ہیں ، لوگوں میں محنت کی عادت نہیں، مگر جیسے ہی یہ پاکستانی مُلک سے با ہر ہوتے ہیں ، وہاں یہ خوب محنت کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی اپنی اِسی نااہلی ، اور کام چوری کیوجہ سے اپنے ستر سالوں کی تاریخ میں کوئی بڑا نام پیدا نہیں کر سکے ہیں۔

جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں نے اپنی مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو بھی متنازعہ بنا رکھا ہے۔
ملک میں ٹیلنٹ کی بے قدری کی تیسری مثال ہمارے ایٹمی سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب ہیں، جنہوں نے پاکستان کے نیوکلئیر پروگرم کو ناقابلِ تسخیر بنایا ۔ ڈاکٹر خان صاحب نے 1970ء کی دہائی میں بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ وہ اپنی تعلیم اور ہنر مندی کی بناء پر پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کے آگے بڑھانے کے عزم کا ارادہ کیا جسے بھٹو صاحب نے قبول کرتے ہوئے انہوں نے یہ ذمہ داری ڈاکٹر صاحب کو سونپ دی ،اور پھر ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔

ڈاکٹر خان کی خواھش تھی کہ پاکستان اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا کر اپنی توجہ دوسرے شعبوں مثلاً تعلیم، معیشت اور صحت کے میدانوں میں صِرف کرے، جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آ سکے، عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے۔لیکن اِس سب کے نیک مشن کے باوجودڈاکٹر صاحب کا جو حال ہوا اور اُن پر جس طرح کے الزمات لگے، اور جس طرح ریاستِ پاکستان ڈاکٹر خان کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے نظریں چُرا کراُنہیں تنہا چھوڑ گئی ، اِس طرح کی بے وفائی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے محسن ڈاکٹر خان کو اپنی رہائی کیلئے اور حبُ الوطنی ثابت کرنے کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑے۔پاکستان کے ایٹمی سائنسدان کی اِس جگ ہنسائی کے بعد اب شاید ہی کوئی پاکستانی اِس طرح سے ملک کی خدمت کرنے اور اپنا مستقبل چھوڑ کر ملک میں آنے کی غلطی کرے۔جب آپ اپنے ہی لوگو ں کی اِس طرح تذلیل کریں گے اور اُنکی مُلک کیساتھ وفاداری کو مشکوک بنائیں گے تو پھر کوئی پاکستانی اپنا مُستقبل چھوڑ کر پاکستان نہیں آئے گا۔

اور پھر یہی ہوگا کہ مُلک میں جس طرح کرائے کے ترجمان پوری قوم کو ملک کی خدمت ، حب الوطنی اور ملک میں سرمایہ کاری کار درس دے رہے ہیں، جبکہ اُنکی اپنی شہریت ، جائیدادیں اور گاڑیا ں امریکہ، کینیڈا اور یوکے میں ہیں۔
پاکستان میں ٹیلنٹ کی بے قدری کی چوتھی اور بھیانک مثال پاکپتن کے رہائشی فیاض احمد کی ہے جس نے خود سے محنت کر کے جہاز کا ایک پروٹوٹائپ (ماڈل) بنا ڈالا اور پھر اُس کو اُڑانے کا کامیاب تجربہ بھی کر ڈالا۔

آج سے تقریباً ایک ڈیڑھ سال پہلے آنیوالی اِس خبر کے بعد اور میڈیا کوریج کے بعد فیاض احمد نہ جانے کہاں کھوگیا،کیا وہ اپنے اِس شوق کو مذید بڑھا پایا؟ کیا اُسکی ہنر مندی، شوق اور تخلیق کے جذبے کو مذید سراہا اور اُبھارا گیا؟ کیا کسی پاکستانی ادارے نے اُس اَن پڑھ مگر باصلاحیت نوجوان کی صلاحیتوں کو استعمال کیا؟ یا پھر سول ایویشن کے چند افسران آئے ، فوٹو سیشن کیا اور بس بات ختم!مُلک میں موجود فضائی بحران کے دوران میں نے پچھلے دنوں فیاض احمد کی وڈیوز بھی دیکھی اور مجھے بڑا رنج ہوا اور میں بڑا دُکھی ہوا کہ اُس نے کس قدر مصیبتیں کاٹ کر اور پریشانیاں کاٹ کر جہاز کا ماڈل بنایا ۔

فیاض احمد بتاتا ہے کہ وہ دن میں پوپ کارن بیچا کرتا تھا اور رات کو چوکیداری کیا کرتا تھا، اور جو باقی کا وقت بچتا تھا اُس میں وہ جہاز پر کام کیا کرتا تھا۔میری ذاتی رائے میں وہ شخص شوق، تخلیق اور محنت کی معراج تھا جس نے پاکپتن شریف میں رہتے ہوئے ہوائی جہاز بنا ڈالا۔ریا ستِ پاکستان کو فیاض احمد کو مذید مواقع فراہم کرنے چاہیں تھیں اور بتا نا چاہیے کہ وہ فیاض احمد آجکل کس حیثیت میں ریا ستِ پاکستان کی خدمت کررہا ہے؟ یا پھر ریاستِ پاکستان نے اِس فیاض احمد کیساتھ بھی وہی ناروا اور بے وفا سلوک کیا جو اُس نے اپنے ایٹمی سائنسدانواں اورپروفیسروں کیساتھ کیا۔


اگر ٹھنڈے کمروں سے نکل کر صحیح معنوں میں فیاض احمد کے جہاز کے پروٹوٹائپ پر کام کیا ہوتا تو مُلک میں چھوٹے جہازوں ، ڈرونز اور quad-coptersکی کئی کمپنیاں قائم ہو سکتی تھیں۔مذید یہ کہ فیاض احمد کے ماڈل پر چھوٹے جہازوں اور ڈرونز کی مدد سے ٹڈی دل کے حملے پر قابو پانا کوئی بڑا مسلئہ نہیں تھا۔لیکن مُلک میں ٹیکنالوجی، صلاحیت اور قابلیت کے فقدان کیوجہ سے اتنے بڑے رقبے پر ٹڈی دل کے حملے کیوجہ سے کھڑی فصلیں تبا ہ ہوگئی ہیں اور مُلک کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچا ہے۔

آپ یقین کریں کہ ہمارے انجنئیرنگ ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اداروں میں اتنی قابلیت اور صلاحیت نہیں کہ وہ کسی مسلئے کا کوئی حل دے سکیں۔ہم نے ملک میں ذہانت اور ٹیلینٹ کی بے قدری کی جو مثالیں قائم کر رکھی ہیں اُسکے بعد اب شاید اِس ملک میں چاہتے ہوئے بھی کوئی شخص ایمانداری ، نیک نیتی اور خلوص کیساتھ کام کرنے کا جُرم نہ کرے۔شکریہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :