علماء کونشانہ نہ بنائیں

بدھ 15 اگست 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

سیاسی اورنظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن عام انتخابات میں علماء کے قبیل سے تعلق رکھنے والے سفیدریش بزرگوں کوجس طرح شکست ہوئی وہ ہمارے جیسے سیدھے سادھوں کیلئے کسی درداورتکلیف سے ہرگز کم نہیں ،علماء کاوجودجہاں بھی ہووہ ہرخاص وعام کیلئے باعث برکت اوررحمت ہوتی ہے۔علماء اگرمنبرومحراب کے ساتھ اقتدارکے ایوانوں میں موجودہوں گے توہمیں شرکی بجائے ضرورکوئی نہ کوئی خیراوربھلائی ہی پہنچے گی۔

مولانافضل الرحمن تواپنی جداگانہ سیاست کے باعث ویسے ہی بدنام اورمخالفین کیلئے سخت مزاجی کاگوشہ رکھنے پران کے دشمن بھی بہت ہیں لیکن جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق غریبی فقیری میں توسب سے جداضرورہونگے لیکن ان کااندازسیاست توکسی سے الگ ہے نہ تھلگ،پھروہی ایک سراج الحق توہے جس کوملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے دیانت داراورامانت دارہونے کاسرٹیفکیٹ دیا۔

(جاری ہے)

ان جیسوں کااسمبلی سے باہرہوناملک ودین دشمنوں کے لئے تومٹھائیاں تقسیم کرنے کاسبب ہوسکتاہے مگرہمارے جیسوں کے لئے کبھی نہیں۔نئے پاکستان کے منزل کی طرف بڑھنے والے عمران خان کی تاریخی کامیابی پرہمیں جتنی خوشی ہے اتنی ہی سراج الحق اورمولانافضل الرحمن جیسے دین سے وابستہ بزرگوں اورعلماء کی شکست پردرداورتکلیف کاسامنابھی ہمیں ہے۔مولانافضل الرحمن اورسراج الحق سے لاکھ سیاسی اورنظریاتی اختلاف کے باوجوداللہ گواہ ہے کہ ہمیں ان جیسوں کااسمبلی سے باہرہوناذرہ بھی اچھانہیں لگا۔


کہنے کے لئے لوگ بہت کچھ کہتے ہیں لیکن سوچنے کے لئے کوئی ایک منٹ بھی سوچتانہیں ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پہلے بولتے ہیں ،جب دل کھول کربول لیتے ہیں یاالفاظ کاذخیرہ ختم کرلیتے ہیں تو پھراسے تولنے کی کوشش کرتے ہیں ،عام انتخابات میں علمائے کرام کی شکست کے سلسلے میں بھی بہت کچھ بغیرسوچے اورسمجھے بولاجارہاہے۔

ان مولویوں نے سیاست کوخراب کردیاتھا،اسمبلی پران کاقبضہ تھا،ہرحکومت کے ساتھ یہ چمٹے تھے، اب اسمبلی سے ہی باہرہوگئے توتکلیف ہوگئی ۔اس طرح کی غیرضروری اورفضول باتیں کئی روزسے ہم مسلسل سنتے اورپڑھتے آرہے ہیں ۔سوشل میڈیاپرتودین سے بیزار کچھلوگوں نے چندعلماء کی شکست پرپوراآسمان ہی سرپراٹھالیاہے۔ان کی گفتگواورباتوں کودیکھ کرایسالگتاہے کہ اس ملک کاسب سے بڑامسئلہ یاخرابی کہیں صرف یہ چندمولوی ہی ہے۔

حالانکہ پوری دنیاکویہ معلوم ہے کہ ان مولویوں کے بغیرہماراکہیں کوئی گزارہ نہیں ۔پیدائش سے لیکرقبرتک ہرجگہ ہمیں اسی مولوی کی ضرورت پڑتی ہے۔سوچنے کی بات ہے اگرمسجدسے مولوی کونکالاجائے تواس پرکیاہمیں خوشی ہوگی۔۔؟مولوی توہماراامام ہے،جس طرح بچے کی پیدائش پران کے کانوں میں اذان دینے،شادی کے وقت نکاح پڑھانے اورنمازکے اوقات میں نمازپڑھانے کے لئے ہمیں ایک مولوی اورامام کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسمبلی کے اندربھی امام اورمولوی کے بغیرہماراگزارہ نہیں ۔

یہ ملک کلمہ طیبہ کے نام پربنا،ماناکہ ہماری اسمبلیوں میں پہنچنے والے آکسفورڈجیسی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے پڑھنے والے ایم این اے اورایم پی اے دنیاوی تعلیم ،ہنراوردیگرفنون کے مکمل ماہرہونگے لیکن دین کے معاملے میں وہ کسی عالم اورمولوی کے بغیرایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتے ۔انتخابی مہم میں لاکھوں روپے لگاکرکروڑوں اور اربوں روپے کمانے کے لئے اسمبلی کارخ کرنے والوں کودین اوربے دینوں کاکیاپتہ۔

۔؟ایک عام مولوی بھی چاہے کتناہی براکیوں نہ ہووہ پھربھی کسی عام اوردنیادارشخص سے ہزاردرجے بہترہوتاہے۔نوازشریف جیسے ہمارے ان عام سیاستدانوں اورحکمرانوں کابس چلے تویہ ملک کے ساتھ ہمیں بھی کچھاچھپاجائیں لیکن ایک مولوی ملک وملت کی طرف کوئی غلط قدم اٹھاتے ہوئے ہزاربارضرورسوچے گا۔دنیانے فرضی اورنقلی داڑھی اورپگڑیوں کے ذریعے مولویوں کوویسے بدنام کردیاہے حالانکہ مولوی ایسے ہرگزنہیں جیسے ہم سوچتے ہیں ۔

ماناکہ مولوی کے روپ میں چھپے چند شیطان نماملاؤں نے دین کوبہت بدنام کیالیکن ملک کی ترقی،امن کی بحالی اوردین کی سربلندی کے لئے تو مولانافضل الرحمن جیسے مولویوں کاکردارہردورمیں ایک چمکتے ہوئے ستارے یاچاندکی طرح رہا،یہ وہی مولانافضل الرحمن توہے جس نے اپنوں اوربیگانوں کو ہتھیار اٹھانے کی بجائے ہمیشہ قلم وکتاب اٹھانے کی ترغیب دی ۔

یہ وہی مولانافضل الرحمن توہے جس نے خوف ودہشت کے سائے میں بھی امن ،اخوت،رواداری اوربھائی چارے کانعرہ لگاکرپیارومحبت کاعلم بلندکیا۔یہ وہی مولانافضل الرحمن توہے جس نے اپنوں کے ساتھ بیگانوں کوبھی اپنے سینے سے لگایا۔سیاست میں اختلاف ،احتجاج اورمظاہرے ہرشخص کابنیادی حق ہے،ن لیگ والے جوآج پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف والے ایم کیوایم کی طرف دوستی کاجو ہاتھ بڑھارہے ہیں کل تویہ بھی ایک دوسرے کے خلاف تھے،ان کی طرح اگرمولانافضل الرحمن کسی کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھاتے ہیں یاکسی کوسیاسی حریف بناتے ہیں تواس میں برااورگناہ کیا۔

۔؟کہتے ہیں کہ مولانابارہ سال تک کشمیرکمیٹی کے چےئرمین رہے ،بہت مزے اڑائے،اب چےئرمین شپ گئی توآنکھیں کھل گئیں ،آنکھیں کیاکھلیں کہ ہوش وحواس ہی کھوگئے۔اواللہ کے بندو،اس ملک میں جوایک سال تک کشمیرنہیں پاکستان کی کسی کمیٹی کے چےئرمین رہتے ہیں وہ بھی جاتے ہوئے آدھاپاکستان ساتھ لے کرجاتے ہیں ،مولاناگئے یہ تودیکھووہ ساتھ کیالیکرگئے۔

۔؟جتنی تمہاری عمریں ہیں اتنامولاناکاسیاسی تجربہ ہے ،مولاناسال دوسے نہیں سالوں سے میدان سیاست میں کھیل رہے ہیں لیکن آج تک کسی پانامہ شانامہ میں مولاناکانام نہیں آیا،مخالفین نے ایڑی چوٹی کازورلگایالیکن وہ آج تک مولاناپرایک پائی کی کرپشن بھی ثابت نہیں کرسکے۔ہم مولاناکاکوئی دفاع نہیں کررہے نہ ہی ان کی کوئی وکالت کررہے ہیں،دیگرانسانوں کی طرح مولانامیں بھی ایک دونہیں ہزاروں غیب موجودہوں گے لیکن اس کے باوجود یہ ضرورکہتے ہیں کہ مولانافضل الرحمن اورسراج الحق جیسے لوگوں کاسیاسی عمل سے باہرہوناکسی بھی طورپرملک وقوم کے لئے بہتراورسودمندنہیں ، مولانافضل الرحمن اورسراج الحق میں لاکھ برائیاں ہوں گی مگران کی حب الوطنی پراپنے کیاکہ بیگانے بھی ذرہ برابر شک نہیں کرسکتے۔

آج جولوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانالوگوں کوملک وقوم کے خلاف اکسارہے ہیں وہ تاریخ میں کیوں نہیں جھانکتے ،مولانانے توباغیوں کوبھی ہمیشہ ریاست کے سامنے سرجھکانے کادرس دیا،لوگ جب ڈنڈے اورانڈے اٹھاکرحقوق حاصل کرنے کے نعرے لگارہے تھے مولاناتواس وقت بھی سیاست اورجمہوریت کی چھتری اٹھائے اپنے حقوق کے حصول کے لئے سیاسی راہ اپنانے کی تلقین کرتے رہے۔

بہرحال سیاست سیاست اپنی جگہ لیکن خداراسیاست کے نام پرعلماء کونشانہ نہ بنایاجائے،علماء سیاسی ہیں یامذہبی،دیوبندی ہیں ،بریلوی یاپھراہلحدیث ۔یہ سارے ہمارے لئے قابل احترام اورباعث خیروفخرہیں ۔امام امام ہوتاہے چاہے وہ ایوان میں ہویاکسی مسجدمیں ۔اس لئے سیاسی بغض وعنادکی جنگ میں علماء کے خلاف زبان درازی اوربیان بازی سے ہرممکن گریزکرناچاہئے کیونکہ ان کاہمارے بغیرگزارہ ممکن ہے مگرہمارابطورمسلمان ان کے بغیرگزارہ ہرگزنہیں ہوسکتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :