تم بھی تماشابننے کیلئے تیاررہو

بدھ 22 اپریل 2020

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

غربت برسوں سے ہمارے اڑوس پڑوس میں ڈیرے ڈال کرخراٹے مارتی رہی اورہم چوکوں،چوارہوں ،ریگستانوں،صحراؤں اورشہروں میں غریب تلاش کرتے پھرتے رہے۔جس طرح ہرمانگنے والابھکاری نہیں ہوتااسی طرح ہرمٹھی بندکرنے اورہاتھ سمیٹنے والاامیربھی نہیں ہوتا۔ہاتھ پھیلانایہ غربت کی کوئی نشانی نہیں ۔اس دنیا،اس ملک اوراس معاشرے میں ایسے ہزاروں ولاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اوراربوں لوگ ایسے بھی ہیں جوغربت،تنگدستی،مجبوری،لاچاری اورفقروفاقوں کے باوجودشرم کے مارے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔

سوچنے کی بات ہے ایسے لوگ پھرایسے معاشرے میں جہاں دس روپے کی امدادبھی کیمرے،فیس بک،یوٹیوب،اخبارات اورٹی وی چینلزپردنیاکے سامنے دی جارہی ہوکیسے یہ رازبے رازکریں گے کہ وہ کوئی غریب،فقیر،مجبوراورلاچار ہیں۔

(جاری ہے)

۔؟غربت واقعی بہت بڑی بلاء ہے لیکن آج اس غربت سے بھی بڑی آفت ایک غریب ،مجبور،لاچار،تنگدست اورایک خودارماں،بہن،بیٹی،باپ،بیٹے یاکسی بھائی کی آٹے کے ایک تھیلے،پانچ کلوچینی،ایک کلوڈالڈایادوکلوچاول امدادلینے کی تصویرکاامدادکے گھرمیں پہنچنے سے پہلے فیس بک،یوٹیوب،اخبارات اورٹی وی چینلزپرسامنے آناہے۔

جولوگ شرم کے مارے ساری عمراپنی غربت،تنگدستی،مجبوری،لاچاری اورفقروفاقوں کودنیاسے چھپائے رکھے۔جوفقروفاقوں کوہنسی خوشی گلے لگائے پرشرم کاکڑواگھونٹ کبھی نہ پیئے۔جوایک خشک روٹی،خالی پانی اورگھاس پوس پرصرف اس لیئے گزاراکریں کہ ان کے چہرے سے خودداری،شرم وحیاء کی چادرکہیں سرک نہ جائیں ۔پھرجب اچانک بیس کلوآٹے اورپانچ کلوچینی لینے پر ان کاشرم وحیاسے لبریزچہرہ فیس بک ،یوٹیوب ،اخبارات اورٹی وی چینلزپردنیاکے سامنے آئے گاتوخداراصرف ایک منٹ کے لئے سوچیں ۔

ایسے لوگوں پرپھرکیاگزررہی ہوگی۔۔؟ایسے لوگ پھرشرم سے پانی پانی ہوکرمریں گے نہیں توکیاخاک جیئیں گے۔۔؟ماناکہ غربت کی کوئی قیمت نہیں ۔بھوک پھرانسان سے دنیاکاہرکام اوردھندہ کروادیتی ہے مگرایک بات یادرکھیں کہ شرم وحیاء کے مقابلے میں غربت،بھوک وافلاس بھی کچھ نہیں ۔اکثرخودارلوگ غربت،بیروزگاری،فقروفاقوں اوربھوک وافلاس کے ہاتھوں بھوک سے بلک بلک کرجان تودے دیتے ہیں لیکن شرم وحیاء پروہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

دین اسلام جس نے ہرمعاملے میں قدم بقدم ہماری رہنمائی فرمائی۔صدقہ،خیرات،زکوٰة اورغریب،مجبوراورلاچارلوگوں وانسانوں کی مددکرنے کے طورطریقے بھی ہمیں کھل کربتادیئے ہیں ۔جب تم کسی کی مددکرناچاہوتواس طرح کروکہ اگردائیں ہاتھ سے کسی غریب،مجبوراورلاچارکوکچھ دوتوبائیں ہاتھ کوبھی اس کی خبرنہ ہو۔نام کے توہم سب مسلمان ہیں لیکن اسلامی تعلیمات،حدوداورقیودسے آج ہم اتنے دوراتنے دورہوگئے ہیں کہ اتنے دوروہ کالے کافربھی نہیں ہونگے۔

دس کلوآٹے یاپانچ کلوچینی پرکسی کی غربت کامذاق اڑانایاکسی کودنیاکے سامنے تماشابنانایہ کہاں کی انسانیت۔۔؟کونسی مسلمانی۔۔؟اورکہاں کی بھلائی وخیرخواہی ہے۔۔؟پہلے جوکہاجاتاتھاکہ نیکی کردریامیں ڈال۔کیاوہ نیکی اب صرف ایچ ڈی کیمرے،فیس بک،یوٹیوب،اخبارات اورٹی وی چینلزپرڈالنے کے لئے رہ گئی ہے۔۔؟غریب،مجبوراورلاچارماؤں،بہنوں،بیٹیوں،بیٹوں اور بھائیوں کی امدادلینے والی تصاویرہم پہلے کھینچواتے ہیں اورایک کلوآٹے کی امدادہم انہیں بعدمیں دیتے ہیں۔

کسی غریب اورمجبورماں ،بہن ،بیٹی اوربھائی کی تصویربناتے ہوئے کیاہم نے کبھی یہ سوچا۔۔؟کہ اگراس طرح کوئی ہمیں ایک کلوآٹے اورپاؤچینی کے لئے دنیاکے سامنے تماشابنائیں توپھرہم پرکیاگزرے گی۔۔؟یاپھرہماری کیاحالت ہوگی۔۔؟ اس ملک میں مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے پہلے ہی ہرشخص کاجیناحرام اورمحال ہوگیاتھا۔اوپرسے کروناکی وباء نے غریب طبقے پربجلیاں گرادی ہیں ۔

لاک ڈاؤن اورنظام زندگی مفلوج ہونے کے باعث آج ملک میں سفیدپوش طبقے کے لئے زندگی کانظام چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ساہوکررہ گیاہے۔ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ مخیرحضرات آگے بڑھتے اوران غریبوں کے چولہے بجھنے سے بچانے میں اپناکرداراداکرتے مگرافسوس ہزاروں کروڑپتیوں اوردرجنوں ارب پتیوں کے بیچ میں بھی آج کوئی ایسامخیرنظرنہیں آرہاجنہوں نے اپنے درغریبوں کے لئے واہ کردیئے ہوں۔

مشکل کی اس گھڑی میں گنتی کے جوچندلوگ آگے بڑھے ہیں یاسامنے آئے ہیں ۔انتہائی معذرت کے ساتھ انہیں بھی کسی غریب،مجبوراورلاچارکوکوئی امداددینے سے زیادہ اس ایک سیلفی کی پڑی ہوئی ہے جس سیلفی سے میڈیااورسوشل میڈیاپروہ کرائے کے چندٹٹوؤں سے اپنی کچھ واہ واہ کرواسکیں۔میڈیااورسوشل میڈیاپرجب کسی غریب اورمجبورماں،بہن اوربیٹی کوآٹے کاایک تھیلاتھمانے کی سیلفی جب نظروں سے گزرتی ہے تودل پھٹنے لگتاہے۔

کیاغریب اب اس کام کے لئے ہی رہ گئے ہیں ۔۔؟غریبوں کی غربت کااس طرح مذاق اڑانے سے یہ زمین پھٹتی کیوں نہیں۔۔؟یہ آسمان ہم پرگرتاکیوں نہیں ۔۔؟لوگ کرونا کارونارورہے ہیں ۔ہمارے جیسے اعمال اورافعال ہیں ۔ان کے مقابلے میں تویہ کروناشروناکچھ بھی نہیں ۔ہم توپتھروں کی بارش اورکسی دردناک عذاب کے اس سے بھی زیادہ مستحق ہیں۔جب ہمیں بے حساب دینے والااپنے خزانوں سے مال اورزردیتے ہوئے ہمارامذاق نہیں اڑاتاپھرہم کون ہوتے ہیں چندٹکوں کی خاطرکسی غریب،مجبواورلاچارکامذاق اڑانے والے۔

میڈیا،سوشل میڈیااورسیلفی کے بغیربھی کسی غریب اورمجبورکی مددکی جاسکتی ہے۔رات کے اندھیرے میں غریبوں کے گھروں میں راشن دینے والے بھی توکسی کی مددکررہے ہیں ۔بیواہ خواتین،بے سہاراماؤں،بہنوں،بیٹیوں اوریتیموں کی چپکے سے کفالت کرنے والے بھی توکسی کی مددکررہے ہیں ۔بٹگرام میں ایک نوجوان ڈاکٹرفیاض پنجگل فکرانسانیت کے سائے تلے فیس بک ،میڈیااورسوشل میڈیاسے ہٹ کرعملی میدان میں سرکاری ہسپتالوں کے اندراورباہراس لاک ڈاؤن کے دوران غریب اورمجبورعوام میں تیارکھانامفت تقسیم کررہے ہیں ۔

کسی بھوکے کوکھاناکھلاناتوویسے بھی ثواب کاکام ہے پھراوپرسے جب لاک ڈاؤن ہوپھر تویہ ثواب یقینی طورپر ڈبل اورٹرپل ہوگا۔دس کلوآٹے اورپانچ کلوچینی پرکسی غریب ماں،بہن اوربیٹی کوتماشابنانابہت آسان مگراپنے گھرمیں اپنے ہاتھوں سے کھانابناکرکسی غریب،مجبوراوربھوکے کوکھلانابہت مشکل ہے اوریہی مشکل اس وقت وہ اصل مدداورتعاون ہے جس کی اس ملک ،قوم اورمعاشرے کوسب سے زیادہ ضرورت ہے۔

فیس بک پرتیس مارخان بننے والے ہمارے نام نہادسخی بادشاہوں کو ڈاکٹرفیاض پنجگل جیسے نوجوانوں کی بے لوث خدمت اورپرخلوص جذبے سے کچھ سبق حاصل کرکے مشکل کی اس گھڑی میں غریبوں اورمجبوروں کی حقیقی معنوں میں مددکے لئے آگے بڑھناچاہیئے۔وقت اورحالات ہمیشہ ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔آج جولوگ غریب ہیں کل یہ امیراورجوامیرہیں یہ کل غریب بھی ہوسکتے ہیں ۔

مال ،دولت ،طاقت اوراقتداریہ توحقیقت میں قدرت کی طرف سے انسانوں کاایک قسم کاامتحان لیناہوتاہے۔کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جومال ،دولت ،طاقت اوراقتدارکے امتحان میں سرخروہوتے ہیں ۔دولت ،طاقت اوراقتدارکے گھمنڈمیں جولوگ خداکوبھول کر فرعون بنتے ہیں وہ پھرزندگی بھرکبھی کامیاب نہیں ہوتے ۔اس لئے غریبوں کی غربت کامذاق اڑانے والے ایک بات یادرکھیں کہ وقت اورحالات بدلنے میں کبھی دیرنہیں لگتا۔جوحالات آج ان غریبوں کے ہیں کل کویہی بلکہ اس سے بھی بدترحالات ان فیس بکی امیروں اورسخیوں کے بھی ہوسکتے ہیں ۔اس لیئے نیکی کرفیس بک پرڈالنے کی بجائے دریامیں پھینکنی چاہیئے۔کیونکہ نیکیوں کابدلہ دینے والی ذات کوبدلہ دینے کے لئے کسی فیس بک اوردریاکی کوئی ضرورت نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :