جولائی سے سبق کیا حاصل کیا ؟

جمعرات 2 جولائی 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

5جولائی 1977 کو ہم نے ایک اور ناکام تجربہ کرنے کی کوشش کی اور واقعہ ہی یہ ہمارا تجربہ ناکام ثابت ہوا جمہوریت تو ڈی ٹریک ہوئی لیکن اس کےساتھ بہت کچھ اور بھی ڈی ٹریک ہوگیا بلاشبہ مارشل لاء ایک غیر آئینی کام ہے اور یہ کام کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ہم ہر بار اس آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن جو ان کا ساتھ دیتے ہیں ان کو ہم ہیرو مانتے ہیں اپنا مسیحہ سمجھتے ہیں جو مارشل لاء لگاتے ہیں وہ تو برے ہیں ہی لیکن جو ان کو جواز فراہم کرتے ہیں کبھی ان کے بارے میں بھی ہم نے سوچنے کی کوشش کی جو مارشل لاء کی حمائیت کرتے ہیں ان کو کیا کہیں گے جو اس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کبھی ان کے بارے میں بھی ہمیں اقدامات کرنے چاہیے پانچ جولائی کو جب اس ملک میں ایک جمہوری حکومت اس کے منیڈیٹ سے فارغ کیا گیا اور ایک غیر آئینی اقدام کے ذریع حکومت پر قبضہ کیا گیا تو اس کو سراہا اور اس کی حمائیت بھی ہمارے سیاست دانوں نے کی تھی مٹھائی کسی ملٹری آفیسر نے نہیں بانٹتی تھی بلکہ مٹھائی بانٹنے والہ کام عوام اور ہمارے عوامی نمائندوں نے سر انجام دیا تھا یہ غیر آئینی اقدام کرنے کا موقعہ بھی ہمارے سیاست دانوں نے فراہم کیا تھا اس غیر آئینی اقدام کو تحفظ ہماری عدلیہ نے فراہم کیا تھا جن لوگوں نے یہ کام سرانجام دیا تھا اگر تو یہ غیر آئینی تھا تو پھر اس کو تحفظ کیوں فراہم کیا گیا اصل سزاوار تو اس کو آئینی تحفظ فراہم کرنے والے تھے اس کی مثال بھٹو کیس اور بیگم نصرت بھٹو کیس ہیں ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر عدلیہ نے چڑھایا تھا کسی اور ادارے نے نہیں اور وہاں تک لیجانے والے بھی سیاست دان تھے بیگم نصرت بھٹو کیس میں جمہوریت کو رخصت کرنے والے ہمارے آئینی ادارے تھے کوئی اور نی تھا پانچ جولائی کو غیر آئینی اقدام فراہم کرنے کا جواز بھی ہمارے سیاست دانوں نے فراہم کیا تھا جماعت اسلامی کے الیکشن میں کھڑے امیدوار کو اغوا کرانے والے بھی ہمارے سیاست دان تھے ان کو اپنوں سے زیادہ خطرہ تھا اسی لیے تو یہ ہر بار باہر والوں کو جواز فراہم کرتے ہیں آجاؤ آپ کے لیے راستہ ہموار ہے مجلس شور کے اندر اس ادارے  کے لوگ  نہیں بیٹھتے تھے بلکہ اس کے ممبران بھی ہمارے سیاست دان تھے جن کو اس اشورہ کا میمبر بننا اعزاز لگتا تھا پھر اس چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے  ہمارے عوامی  نمائندے نظر آئے یہ غلطی ان سے ایک بار سر زد نی ہوئی بلکہ بار بار ہمارے نمائندوں نے یہ فریضہ سر انجام دیا جب بھی اداروں نے غیرآئینی کام کیا انھوں نے ان کی مدد کی جنرل ایوب کے ساتھ بھی ہمارے سیاست دان تھے اس کی کا بینہ کے وزیر ہمارے اپنے تھے جنرل ضیاء کی مجلس شورہ میں اس کے ادارے کے لوگ نی تھے بلکہ عوام کے اپنے نمائندے تھے جنرل مشرف کو دس بار وردی سمیت منتخب کرنے کی خواہش بھی ہمارے سیاست دانوں کے دلوں میں تھی اور منتخب بھی سیاست دانوں نے کیا عدلیہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی کبھی نظریہ ضرورت تو کبھی کچھ اور نام دے کا جواز بھی اور آئینی تحفظ بھی فراہم کرتی رہی بندہ ناچیز خود جمہوریت کا بہت بڑا حامی ہے لیکن ہمیں تصویر کے دونوں رخ کی طرف دیکھنا ہے کیوں ہم ہر بار ایک کو ہی اس کا قصور وار سمجھتے ہیں لیکن حقائق سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :